Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ابن صفی کے ناول طنز و مزاح اور اسرار کا مکمل ڈوزہیں‘‘

Updated: July 28, 2025, 4:09 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

ابن صفی کو پڑھنے والے نوجوان قارئین کے مطابق اپنے ناولوں میں انہوں نے ہر قاری کی ذہنی سطح کا بھرپور خیال رکھا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

اردو جاسوسی ادب میں ابن صفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ان کے تخلیق کردہ کردار علی عمران، کرنل فریدی، کیپٹن حمید، صفدر، تھریسیا اور سنگ ہی  نے نہ صرف قارئین کو حیرت میں ڈالا بلکہ اردو فکشن کو ایک نیا انداز، نیا آہنگ اور نئی زبان دی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ابن صفی کے ناول اور ان کے کردار عوام میں اتنے مقبول کیوں ہوئے؟پہلی اور سب سے بڑی وجہ ابن صفی کی زبان اور اسلوب ہے۔ انہوں نے عام فہم اور شائستہ زبان میں ایسے جملے تخلیق  کئے جو بظاہر ہلکے پھلکے ہوتے ہیں لیکن ان میں طنز، مزاح، فقرہ بازی اور گہرائی ایک ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ان کی تحریر میں نہ تو بے جا تصنع ہے نہ ہی الجھاؤ، بلکہ وہ سیدھی اور رواں دواں ہوتی ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ دوسری اہم وجہ ان کے ناولوں کا دلچسپ اور سنسنی خیز پلاٹ ہے۔ ابن صفی کے ناولوں میں ایسے اسرار ہوتے ہیں جنہیں قاری آخری صفحہ تک جاننے کیلئے بے چین رہتا ہے۔ مجرم کون ہے؟ سازش کی تہہ میں کیا ہے؟ سازش کاپس منظر کیا ہے؟ یہ تمام سوالات پڑھنے والے کے ذہن کو مسلسل متحرک رکھتے ہیں۔تیسری اور شاید سب سے مؤثر وجہ ان کے کرداروں کا یادگار اور منفرد ہونا ہے۔ عمران ایک بے پروا  اور دیوانہ سا کردار ہے جو اپنی برجستگی اور بے ساختگی کیلئے قارئین کا پسندیدہ ہےلیکن وہ اصل میں خفیہ ادارے کا سربراہ ہے۔ اس کی ظاہری حماقتوں کے پیچھے ایک شاطر دماغ چھپا ہوا ہے۔ فریدی ایک اصول پسند اور سنجیدہ کردار ہے جو جرم کے خلاف ایک جنگجو کی طرح میدان میں مصروف رہتا ہے۔ حمید کا مزاح اور بے ساختگی قارئین کو ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو قارئین کو ان کرداروں سے جذباتی طور پر جوڑ دیتے ہیں۔چوتھی وجہ سماجی اور تہذیبی رنگ ہے۔ ابن صفی کے ناولوں میں نہ صرف جرم و سزا کی دنیا دکھائی دیتی ہے بلکہ ان میں اُس دور کی تہذیب، رہن سہن، سیاسی جھلکیاں، معاشرتی رویے اور انسانی نفسیات کا خوبصورت مشاہدہ بھی ملتا ہے۔ یہی پہلو اُن کے ادب کو محض تفریحی نہیں بلکہ معنوی بھی بناتا ہے۔پانچویں اور اہم وجہ یہ ہے کہ ابن صفی نے اپنے قاری کی ذہنی سطح کا خیال رکھا۔ ان کے ناول ہر عمر کے فرد کو متاثر کرتے ہیں۔ بڑی عمر کے بچے ان میں مزاح اور کارناموں کو پسند کرتے ہیں، نوجوان اسرار و سسپنس کو اورسنجیدہ عمر کے قارئین اس میں موجود تہذیبی اشاروں اور نفسیاتی گہرائی کو۔آخر میں  ابن صفی کے ناول ایک مکمل پیکج ہیں، سنسنی، مزاح، رومانس، تہذیب، اور معاشرتی بصیرت یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے ان کے ناولوں کو اردو ادب کا لازوال سرمایہ بنا دیا  اور ان کے کرداروں کو زندہ و جاوید۔ آج بھی عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے یہ کردار نئے قاری کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اور پرانے قاری کو  ایک سنہرے دور میں لے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے کچھ ایسے ہی نوجوان قارئین سے  یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ ابن صفی کے ناول پڑھتے ہیں تو کیوں پڑھتے ہیں؟  ان میں انہیں کیا لطف ملتا ہے؟ کیا ابن صفی کے ناول ۵۰؍سال بعد بھی آج کے دور سے مطابقت رکھتے ہیں ؟ 
 ممبئی یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی کی طالبہ شیخ تہذیب  نے بتایا کہ ’’ابن صفی اردو ادب کی عالمی  نمائندگی کرنے والے ادیب ہیں۔ ان کا تحریر کردہ ادب آج کے دور سے بھی اتنی ہی مطابقت رکھتا ہے جتنا اُن کے دور میں تھا ۔ ان کی تحریر کردہ بہت سی باتیں آج بھی سیاست ، سماجیات، معیشت ، روایات ، انسانیت اورعمرانیات پر حرف بہ حرف نافذ ہوتی ہیں۔ ‘‘  شیخ تہذیب جن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’۱۹۸۰ء کے بعد اردو ادب میں طنز و مزاح ‘‘ ہے ، کہتی ہیں کہ اس موضوع کو منتخب کرنے کی وجہ سے انہیں ابن صفی کے ناولوں کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر مزاحیہ مضامین کو بھی پڑھنے کا موقع ملا  ۔ وہ کہتی ہیں کہ ابن صفی کے مزاحیہ مضامین بھی اتنے ہی مزیدار اور توجہ طلب ہیں جتنے ان کے ناول ہیں۔ ہمیں اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔
  پی ایچ ڈی کی طالبہ شیخ رابعہ تبریز کہتی ہیں کہ ’’ابن صفی کو میںنے ۸؍ ویں یا نویں جماعت سے پڑھنا شروع کیا تھا اور آج تک پڑھ رہی ہوں۔ اب تو  ان کے کئی ناولوں کا کئی مرتبہ اعادہ ہو چکا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جتنی مرتبہ ان کی تحریر پڑھی جائے اتنی مرتبہ نئی محسوس ہوتا ہے اور ہر مرتبہ جو لطف ملتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو  اُن کے ناول پڑھتا ہے۔ جو نہیں پڑھتا ہے میری نظر میں وہ محروم ہے۔ ‘‘رابعہ تبریز جن کا پی ایچ ڈی کا موضوع ’’ احمد جمال پاشا کے طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ ‘‘ہے، کہتی ہیں کہ انہیں عمران سے زیادہ فریدی پسند ہےکیوں کہ اس کا اپروچ سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ  ڈسپلن سے بھرپور ہے۔ ساتھ ہی قاسم اور حمید کی نوک جھونک بھی مزہ دیتی ہے ۔آج کے دَور سے ابن صفی کے ناولوں کے مطابقت رکھنے کے سوال پر رابعہ تبریز نے کہا کہ  ان کا ایک ایک ناول اس قابل ہے کہ اسےدوبارہ بلکہ سہ بارہ پڑھاجائے۔ اب اس سے زیادہ مطابقت کیا ہو گی کہ آج کی نسل کے  نوجوان بھی ان کے ناولوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کرپڑھتے ہیں۔
 مہاراشٹر کالج کی ایم اے کی طالبہ صفیہ خان کہتی ہیں کہ’’ابن صفی کو پسند کرنے کی وجہ ان کی تحریر کی دلکشی ہے۔اس میں طنز ومزاح اور برجستگی کا مکمل ڈوز ہوتا ہے۔ مزاح کی وجہ سے ہی قاری شروع سے آخر تک  بندھا ہوا رہتا ہے۔ ‘‘ صفیہ خان کے مطابق صرف طنز و مزاح ہی نہیں بلکہ ان کے ناولوں میں اخلاقی پیغام بھی بہت اعلیٰ اور واضح ہوتا ہے۔ چاہے وہ فریدی کی زبان سے ہویا عمران کی حرکتوں کے ذریعے لیکن اس میں فحاشی بالکل نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ابن صفی پہلے بھی فیملی کے رائٹر رہے ہیں اور آج بھی مختلف خاندانوں میں الگ الگ عمر  کے لوگ انہیں پڑھ رہے ہیں۔ صفیہ خان نے بتایاکہ انہوں نے ان ناولوں کی ابتدا بی اے کی شروعات میں کی تھی لیکن بعد میں ان ناولوں کو گوگل پر سرچ کرکے بھی پڑھا ہے اور کتابی شکل میں بھی وہ پڑھتی ہیں۔ 
 نوجوان شاعر اور معلم شعیب ابجی   کہتے ہیں کہ ’’کسی بھی تخلیق کار کیلئے اس سے بڑی کامیابی نہیں ہو سکتی کہ کسی صنف کا تذکرہ کرتے ہی قارئین کے ذہنوں میں کسی ایک تخلیق کار کا نام آ جائے  اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اُس تخلیق کار کے لیے اس سے بڑی کوئی سند نہیں ہو سکتی۔ اردو ادب میں جاسوسی ناولوں کا ذکر ہوتے ہی جو نام قارئین کے ذہنوں میں گردش کرنے لگتا ہے وہ نام ابن صفی ہے۔ ‘‘ شعیب ابجی کے مطابق  وہ  ۸؍ ویں یا نویں کلاس  سے ہی  ابن صفی کو پڑھتے رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ اُس عمر میں میں ان کے اسلوب اور زبان کی باریکیوں سے تو واقف نہیں تھا مگر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ ابن صفی کے ناولوں کے قریب کیا وہ میرا تجسس تھا۔ ہر صفحہ ایک نئے زاویے اور نئے تجسس کو جلا بخشتا تھا۔کئی مرتبہ بلکہ اکثر میں اپنے ذہن میں جو اختتام سوچا کرتا تھا ویسا نہیں ہوتا، وہ ساری چیزیں حیرت انگیز طور پر کلائمکس میں تبدیل ہو جاتیں اور میں ایک غیر متوقع اختتام کے ساتھ خیالوں اور سوالوں کی دنیا میں کھو جاتا۔ ابن صفی کے ناولوں کی مزید ایک خوبی یہ ہے کہ مجرم چاہے کتنا ہی بڑا، طاقتور  اور ذہین  ہو آخر کار اسے دبوچ لیا جاتا ہے جو حق و باطل کے معرکے میں حق کی فتح کا مژدہ سناتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK