موجودہ وقت میں ایک لمبی فہرست ایسے کاموں کی ہے جنہیں ہم میں سے ایک طبقے نے معمولات زندگی میں شامل کر لیا ہے؛ حالانکہ وہ کام اخلاقی طور پر ناپسندیدہ اور از روئے شریعت غلط ہیں۔
EPAPER
Updated: May 05, 2023, 1:14 PM IST | Mudassar Ahmad Qasmi | Mumbai
موجودہ وقت میں ایک لمبی فہرست ایسے کاموں کی ہے جنہیں ہم میں سے ایک طبقے نے معمولات زندگی میں شامل کر لیا ہے؛ حالانکہ وہ کام اخلاقی طور پر ناپسندیدہ اور از روئے شریعت غلط ہیں۔
موجودہ وقت میں ایک لمبی فہرست ایسے کاموں کی ہے جنہیں ہم میں سے ایک طبقے نے معمولات زندگی میں شامل کر لیا ہے؛ حالانکہ وہ کام اخلاقی طور پر ناپسندیدہ اور از روئے شریعت غلط ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ لوگ اس طرح کے کاموں کو انجام دے کر احساس ندامت سے بھی اس طرح خالی ہوتے ہیں گویا کہ انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ اس روحانی و اخلاقی بیماری میں سرفہرست، لوگوں کا کسی کام کو انجام دینے کے تعلق سے غلط بیانی سے کام لینا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آپ سے فون پر پوچھ رہا ہے کہ: ’’آپ کہاں ہیں، مجھے آپ سے ملاقات کرنی ہے۔‘‘ آپ شہر اور مقام پر رہتے ہوئے بھی یہ جواب دیتے ہیں کہ: ’’میں اس وقت شہر سے باہر ہوں اس لئے ملاقات نہیں ہوسکے گی۔‘‘ اسی کی ایک اور دوسری مثال یہ ہے کہ آپ کسی کام کے تعلق سے کسی سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ میں فلاں تاریخ کو یہ کام کر لوں گا اور وہ کام متعینہ وقت میں نہیں کرتے کیونکہ پہلے سے ہی آپ کے دل میں محض ٹالنے اور متعینہ کام نہ کرنے کا ارادہ موجود ہوتا ہے۔ یہ بیماری، جس سے معاشرے میں ایک دوسرے کی باتوں اور وعدوں پر سے بھروسہ اٹھتاجارہا ہے، عام ہوگئی ہے ۔
اِس بیماری سے ایمان کی کمزوری بھی واضح ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین فطرت اسلام نے اس بیماری سے انسانی سماج کو دور رکھنے کے لئے تاکید ی تعلیم دی ہے چنانچہ قرآن مجید میں جہاں سچ بولنے اور سچے لوگوں کے ساتھ رہنے کی تلقین کی گئی ہے وہیں ایفائے عہد یعنی وعدہ پورا کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘ (التوبۃ: ۱۱۹) ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ فرمائے گا: یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا۔‘‘ (المائدہ: ۱۱۹) اسی طرح ایفائے عہد کے تعلق سے رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ ’’اور وعدہ پورا کیا کرو ، بے شک وعدہ کے بارے میں پوچھ ہوگی۔‘‘ (الاسر۱ء: ۳۴) علماء نے لکھا ہے کہ وعدہ کسی فرد سے ہو یا قوم سے اور مسلمان سے ہو یا غیر مسلم سے، اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جب کوئی وعدہ کیا جائے تو دیانت کے ساتھ اس کو پورا کرنا واجب ہے، یعنی اگر شدید عذر کے بغیر پورا نہ کرے تو گنہگار ہوگا۔
صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید کی وجہ سے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی حیات ِ مبارکہ سچ بولنے اور وعدہ کو پورا کرنے کے حوالے سے مثالی تھی۔ایک صحابیہؓکی زندگی کے اس واقعے کو پڑھئے اور دیکھئے کہ چھوٹی باتوں میں بھی سچائی کا کس حد تک خیال تھا اور آپؐ نے معمولی بات میں بھی جھوٹ بولنے سے کس طرح منع فرمایا ہے۔ عبد اللہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ ایک روز نبیؐ ا کرم ہمارے گھر تشریف لائے، میں اس وقت چھوٹا تھا اس لئے کھیلنے چلا گیا، میری والدہ نےکہا اےعبد اللہ! یہاں آؤ میں تمہیں ایک چیز دوں گی، رسولؐ اکرم نے دریافت کیا، تم کیا چیز دینا چاہتی تھیں، انہوں نےعرض کیا کھجور۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہ کرتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھاجاتا۔‘‘ (ابو داؤد)
اس حدیث پاک میں ان لوگوں کیلئے زبردست پیغام ہے جو خواہ مخواہ بھی جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ وہ طبقہ جو کسی کو دھوکہ دینے یا وقتی طور پر جان بچانے کیلئے جھوٹ بولتا ہے، اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ صرف ایک جرم نہیں کررہا ہے بلکہ مختلف جرائم کی بنیاد رکھ رہا ہے جس میں وہ یکے بعد دیگرے پھنستا جائے گا۔اس بات کو بہتر ڈھنگ سے ایک اور واقعے سے سمجھا جا سکتا ہے جس کو صاحب تفسیر کبیر نے نقل کیا ہے۔ ایک شخص بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے زنا، چوری، شراب اور جھوٹ کی عادت ہے، میں ایمان لانا چاہتا ہوں مگر یکدم چاروں عیب نہیں چھوڑ سکتا۔ حضورؐ مجھے ایک عیب سے منع فرما دیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا۔ فرمایا جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ یہ مختصر جواب دے کر اُس نے اسلام قبول کرلیا۔
جب دربارِ عالی سے گیا تو چوری کا ارادہ کیا، خیال آیا کہ اگر پکڑا گیا تومیں جھوٹ تو نہیں بولوں گا، اقرار کروں گا اور میرا ہاتھ کٹےگا- یہی خیال ہر عیب کے ارادہ و خیال کے وقت آیا، اس نے سب سےتوبہ کرلی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ، بارگاہ عالی میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری جان فدا آپؐ ایسے عظیم معلم پر کہ آپؐ نے مجھے جھوٹ سے روک کر سارے عیبوں سے بچا لیا۔ غور فرمائیں کہ جھوٹ نہ بولنے سے کتنی قسم کی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے ۔
زیر نظر مضمون میں ایفائے عہد کے تعلق سے جو بات کہی گئی ہے، اس کے فقدان نے بھی ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایک حدیث کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ وعدہ کر کے اس کو توڑنے کی عادت (یا وعدہ کرتے وقت ہی توڑنے کی نیت) منافق کی نشانی ہے، اس لئے اگر کسی شخص نے کوئی وعدہ کیا ہو تو حتی الامکان اس کو پورا کرے، لیکن اگر کسی نے وعدہ پورا کرنے کی نیت سے کوئی وعدہ کیا ہو اور اب اس وعدہ کو پورا کرنا اس کی استطاعت میں نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کو اللہ تعالیٰ سے خوب توبہ و استغفار کرنا چاہئے۔
ا س تحریر کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں شرعی تعلیمات کے معاملے میں مکمل طور پر سنجیدہ ہونا چاہئے اور ’’یوں ہی‘‘ کسی کام کے کرنے کے کلچر سے باہر آنا چاہئے۔