Inquilab Logo

باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی

Updated: April 27, 2022, 10:18 AM IST | Mumbai

ء ۱۹۷۴ء کی ہندی فلم ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ اپنے دور کی نہایت مقبول فلم تھی۔ اس کا ایک گیت ’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘ گلی گلی گونجتا تھا اور اُس وقت کے بچے بچے کی زبان پر تھا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ء ۱۹۷۴ء کی ہندی فلم ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ اپنے دور کی نہایت مقبول فلم تھی۔ اس کا ایک گیت ’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘ گلی گلی گونجتا تھا اور اُس وقت کے بچے بچے کی زبان پر تھا۔ یہ وہ دور ہے جب ۷۱ء کی ہندپاک جنگ کے بعد مہنگائی عروج پر تھی۔ نغمہ نگار ورما ملک کا تحریر کردہ یہ گیت عوام کے جذبات و احساسات کی بہترین ترجمانی کررہا تھا اس لئے ہٹ تھا۔ اور سچ پوچھئے تو تب سے لے کر اب تک ہٹ ہے۔ جب جب بھی مہنگائی بڑھتی ہے، عوام کی زبان پر اس کے الفاظ اتنی بے ساختگی سے وارد ہوجاتے ہیں جیسے لاشعور کا جزوِ لاینفک ہوں۔ اِس وقت بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ آزاد ہندوستان میں یہ چھٹا موقع ہے جب افراط زر دو عددی ہے۔ مارچ ۲۲ء کو ختم ہونے والے بارہ مہینوں میں دو عددی افراط زر نے تاریخ بنائی۔ ایسا ۲۵؍ سال میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اب سے قبل جب جب بھی افراط زر دو عددی ہوا، تب تب اس کے اسباب تھے۔ کبھی جنگیں، کبھی قحط، کبھی روپے کی قدر میں کمی (ڈی ویلیویشن)، کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔ اب بھی اس کے اسباب ہیں۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی گرانی کم نہیں تھی کہ کورونا نے مزید ستم ڈھایاجب پوری دُنیا میں درآمد اور برآمد کا اور اندرون ِ ملک اشیاء کی نقل و حمل کا سلسلہ منقطع رہا۔ کم و بیش دو سال اسی طرح گزرے۔ اس کی وجہ سے مہنگائی کو کھل کھیلنے کاموقع ملا اور اب یوکرین روس جنگ ایک نیا سبب ہے۔  کورونا کے بعد یوکرین جنگ کی وجہ سے پوری دُنیا میں افراطِ زر کی حکمرانی ہے اور ہر ملک کی حکومت سخت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ امریکہ جیسا ملک بھی پریشان ہے۔ ہم کورونا اور یوکرین جنگ سے پہلے نوٹ بندی اور عاجلانہ جی ایس ٹی کی مار سہہ چکے تھے، اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ۲۰۱۶ء سے جو حالات بگڑے ہیں تو اب تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ چونکہ دُنیا ’’گاؤں‘‘ میں تبدیل ہوچکی ہے اس لئے کوئی بھی ملک دوسرے ملک کے حالات یا اقدامات سے غیر متاثر نہیں رہ سکتا۔ چند روز قبل انڈونیشیا کے صدر جوکو ویڈوڈو نے پام آئل کی برآمد پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ پام آئل کئی طرح کے تیلوں ہی نہیں، شیمپو، صابن، وٹامن گولیوں اور میک اَپ کی اشیاء کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں خوردنی تیل کے دام پہلے ہی سے بڑھے ہوئے ہیں (فی کلو ۱۳؍ تا ۱۶؍ روپے)، اب انڈونیشیاء سے درآمد بند ہونے کی وجہ سے مزید پریشانی ہوگی کیونکہ ہندوستان ۹۰؍ لاکھ ٹن پام آئل بیرونی ملکوں سے درآمد کرتا ہے جس کا ۷۰؍ فیصد صرف انڈونیشیا (اور باقی ملائیشیا) سے آتا ہے۔  تو کیا وہ وقت آرہا ہے جب خوردنی تیل کی راشننگ ہوگی؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ انڈونیشیا کب تک برآمداتی پابندی جاری رکھتا ہے۔ اس کا آغاز ۲۸؍ اپریل سے ہوا چاہتا ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے ہندوستان کو خوردنی تیل کی پیداواری صلاحیت بڑھانی پڑے گی جو کہ مجموعی کھپت ۲۳؍ ملین ٹن کے مقابلے صرف ۱۰؍ ملین ٹن ہے۔ خوردنی تیل کی مہنگائی سے بھی مجموعی مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس کے پیش نظر یہ اُمید کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ گرانی کا دور آج نہیں تو کل ختم ہوجائیگا۔ اُمید تو نہیں جاگتی البتہ یہ اندیشہ لاحق ہورہا ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ یاد رہنا چاہئے کہ اِس وقت جو مہنگائی ہے وہ ریزرو بینک آف انڈیا کی ’’قابل برداشت شرح مہنگائی ‘‘ سے کافی زیادہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK