ہم ’ون نیشن، ون الیکشن‘کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں ؟ یہ سوال اسلئے پوچھا جانا چاہئے کیونکہ اس حوالے سے پالیسی سازوں کے قول و فعل میں کافی تضاد ہے۔
EPAPER
Updated: September 30, 2024, 4:41 PM IST | Sanjay Kumar | Mumbai
ہم ’ون نیشن، ون الیکشن‘کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں ؟ یہ سوال اسلئے پوچھا جانا چاہئے کیونکہ اس حوالے سے پالیسی سازوں کے قول و فعل میں کافی تضاد ہے۔
ہم ’ون نیشن، ون الیکشن‘کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں ؟ یہ سوال اسلئے پوچھا جانا چاہئے کیونکہ اس حوالے سے پالیسی سازوں کے قول و فعل میں کافی تضاد ہے۔ چار سابق چیف الیکشن کمشنروں اور رام ناتھ کووند کمیٹی کے ذریعہ مشورہ کئے گئے ۸؍ میں سے ۷؍ ریاستوں کےالیکشن کمشنروں نے ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کے خیال کو منظوری دی ہے، لیکن جب انتخابات کو عملی جامہ پہنانے کی بات آتی ہے تو الیکشن کمیشن کا طریقہ کار مختلف ہوجاتا ہے۔
ابھی ختم ہوئے۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات ۷؍ مرحلوں میں ہوئے تھے۔ اسی طرح کچھ سال قبل نہ صرف ۲؍ ریاستوں کے انتخابات چند ماہ کے وقفے سے ایک کے بعد ایک ہوئے تھے بلکہ دونوں ریاستوں کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان بھی الگ الگ دنوں میں کیا گیا تھا۔ ایک مثال ابھی بالکل سامنے کی ہے۔ مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں تھے لیکن اب یہ چند مہینوں کے وقفے سے الگ الگ تاریخوں میں ہوں گے۔ اب ایسے میں کیا یہ سوال اہم نہیں ہوجاتا ہے کہ ہم بیک وقت انتخابات کے انعقاد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں ؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ ایک ساتھ انتخابات میں آنے والی رکاوٹیں الیکشن کمیشن کے ذہن میں ہچکچاہٹ پیدا کر رہی ہیں لیکن وہ کھل کر کچھ کہہ نہیں پارہا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی طویل عرصے سے اس پر زور دے رہے ہیں۔ ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی انہوں نے بیک وقت انتخابات کرانے کی ضرورت کا ذکر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کے تئیں اپنی وابستگی ظاہر کرنے کیلئے حالات سازگار ہوتے ہی کوئی وقت ضائع کئے بغیر سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ کمیٹی نے اپنے پہلے اجلاس سے۳۶۱؍ دنوں کے ریکارڈ وقت میں اپنی رپورٹ پیش کردی جس کی منظوری کابینی اجلاس میں بھی ہو گئی ہے۔ کمیٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اس حوالے سے ۴۷؍ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی ہے جن میں سے۳۲؍ نے تجویز کی حمایت کی ہے جبکہ۱۵؍ جماعتوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔
اہم بات یہ کہ اس تجویز کی حمایت کرنے والی ۳۲؍ جماعتوں میں سے بیشتر چھوٹی اور ریاستی بلکہ علاقائی نوعیت کی ہیں جبکہ مخالفت کرنے والی۱۵؍ پارٹیاں بڑی اور قومی نوعیت کی ہیں۔ ان میں سے۵؍ پارٹیاں مختلف ریاستوں میں اقتدار میں بھی ہیں۔ مرکز میں حکمراں بی جے پی کی حلیف ٹی ڈی پی نے شروع میں اس تعلق سے کوئی رائے نہیں دی تھی لیکن اب وہ بھی اس تجویز کی حمایت کر رہی ہے۔ اسی طرح بی ایس پی نے اس تجویز کی مخالفت کا اپنا موقف بدل لیا ہے۔ اب وہ بھی اس تجویز کی حمایت کرنے لگی ہے۔
الیکشن کمیشن اس معاملے پر کوئی ایک بات نہیں کر رہا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں وزارت برائے عملہ و ملازمین، عوامی شکایات اور قانون و انصاف کے پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو پیش کی گئی اپنی تجویز میں کمیشن نے اس خیال کو نافذ کرنے میں حائل ہونے والی کئی مشکلات کی نشاندہی کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اُس وقت کہا تھا کہ بیک وقت انتخابات کے انعقاد کیلئے بڑے پیمانے پر ای وی ایم اور وی وی پیٹ مشینوں کی خریداری کی ضرورت ہوگی۔ اس پر ۹؍ ہزار ۲۸۴؍ کروڑ ۱۵؍ لاکھ روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ اسی طرح ان تمام مشینوں کو ہر۱۵؍ سال بعد تبدیل کرنے کی بھی ضرورت ہوگی، جس پر ایک بار پھر اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ خرچ آئے گا۔ مزید برآں، مشینوں کو سنبھال کر رکھنے کیلئے گودام کے اخراجات کا بھی اضافہ ہوگا۔
کووند کمیٹی کے سامنے کمیشن نے اپنی پیشکش کے دوران ایک بار پھر نقل و حمل کی مشکلات کا ذکر کیا۔ کمیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ۲۰۲۹ء میں بیک وقت انتخابات کرانے کیلئے کل ۵۳؍ لاکھ ۷۶؍ ہزار بیلٹ یونٹس، ای وی ایم کے ۳۸؍ لاکھ ۶۷؍ ہزار کنٹرول یونٹ اور۴۱؍ لاکھ ۶۵؍ ہزار وی وی پیٹ کی ضرورت ہوگی۔ حالانکہ ۱۰؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے ایک عوامی بیان میں کہا تھا کہ اگر حکومت چاہے تو کمیشن بیک وقت انتخابات کرانے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
اُس وقت کےچیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا نے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ون نیشن ون الیکشن‘ ایک اچھی تجویز ہے لیکن اس کیلئے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جو اسمبلی اپنی ۵؍ سالہ مدت پوری نہیں کر سکے گی، اسے اس بارے میں سوچنا ہو گا ورنہ ملک میں بیک وقت انتخابات کرانے کیلئے پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع کی ضرورت ہوگی۔ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا ہے لیکن جہاں تک ایک ساتھ الیکشن کرانے کی بات ہے، تو الیکشن کمیشن اس کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن حکومت اور الیکشن کمیشن کے قول و فعل میں کس حد تک تضاد ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ۲۰۲۲ء میں گجرات اور ہماچل پردیش میں ایک ساتھ اسمبلی انتخابات ہونے تھے لیکن الیکشن کمیشن یہ دونوں انتخابات ایک ساتھ نہیں کراسکا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دونوں ہی ریاستوں کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان بھی الگ الگ کیا گیا تھا۔ ہماچل پردیش کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان۱۲؍ اکتوبر کو کیا گیا تھاجبکہ انتخابات۱۲؍ نومبر کو ہوئے تھے۔ اسی طرح گجرات میں اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان۳؍ نومبر کو کیا گیا تھا جبکہ یکم اور۳؍ دسمبر کو۲؍ مرحلوں میں انتخابات ہوئے تھے۔ مذکورہ دونوں ہی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی ایک ساتھ ۸؍ دسمبر کو ہوئی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ۲؍ چھوٹی ریاستوں کے انتخابات ایک ساتھ نہیں کروائے جاسکتے تو پھر پورے ملک کی تمام اسمبلیوں اور لوک سبھا کے انتخابات ایک ساتھ کیسے کروائے جاسکیں گے؟