Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشرتی زندگی پر سوشل میڈیا کے اثرات اور ہماری لا پروائی

Updated: May 19, 2023, 11:35 AM IST | Professor Halima Sadia | Mumbai

آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت پانے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے ، خواہ اپنی ثقافت و اقدار کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے

The head of every household has to keep his eyes open so that the new generation under his care does not get corrupted.
ہر گھر کے سربراہ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے۔

 انسانی زندگی تین اہم ادوار پر مشتمل ہوتی ہے: بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ یہ  تینوں ہی ادوار منفرد اور خوبصورت اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔  بچپن میں انسان اپنے معاشرے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر اسے اچھا ماحول میسر آجائے تو وہ نیک اور پار سا ہو جاتا ہے۔گویا انسان کے بننے اور بگڑنے کا زیادہ تر انحصار اچھے یا برے ماحول پر ہے۔ جوانی کا دور زندگی کا سنہری دور کہلاتا ہے جس میں طاقت اور توانائی سے بھر پور حضرت انسان کا اپنے مقاصد کے حصول کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ بقول شیخ سعدی شیرازی 
جوانی توبه کردن شیوه پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم مہ شد پرہیز گار
جبکہ بڑھاپے میں اعضائے جسمانی مضموم ہونے لگتے ہیں اور انسان میدان عمل میں بھر پور حصہ لینے سے قاصر اور عاجزہو جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمان باری تعالیٰ ہے:’’ا ور تم نے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس جہانِ فانی میں ہمیں جتنی بھی چیزیں نظر آتی ہیں وہ تمام اس اشرف المخلوقات حضرت انسان کی خدمت کے لئے تخلیق کی گئی ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و بندگی کیلئے تخلیق فرمایا ہے۔ اس ضمن میں اقبال ؔیوں نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں:
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ! 
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! 
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں 
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں 
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں 
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں 
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ! 
  لیکن قارئین کرام ترقی و عروج کی منازل سر کرتے کرتے حضرت انسان اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں ’’آئینہ ایام میں اپنی ادادیکھ کر ایک جانب اپنی ترقی پر فخر سے سر اٹھاتا ہے تو دوسری جانب یہی سائنسی ترقی :
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
 فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے 
کے مصداق نوع بشر کا سر شرمندگی اور پچھتاوے سے جھکا رہتا ہے۔ ایک جانب تو جدید سائنسی ترقی نے حیات انسانی میں آسائش کے ایسے ایسے باب کھول دیئے ہیں کہ جن کا تصور بھی کرنا مشکل تھا، لیکن جدید سائنسی آلات اور طور طریقوں کو اپناتے ہوئے ہم اس جہانِ فانی میں اپنے وجود پانے کے بنیادی مقصد سے دور ہٹتے چلے جارہے ہیں اور وہ بنیادی مقصد رب تعالی کا یہ فرمان ہے:’’جن و انس کو میں نے اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔‘‘
 فرشتے تو انسانی خواہشات اور بشری تقاضوں سے مبرا ہوتے ہیں اور اس بے نیازی میں  ہمہ تن  یادِ الٰہی میں مصروف رہتے ہیں۔ انسان کے ساتھ چونکہ بشری تقاضوں اور نفسانی خواہشات کی مجبوریاں ہیں جو ہر لحظہ نفس امارہ کو ابھار کر اسے گمراہ کرنے پر کمربستہ رہتی ہیںاس لئے  انسان کی عبادت ملائکہ کی عبادت سے کہیں زیادہ مجاہدے اور محنت والی ہے۔
  دور حاضر میں سانس لینے والا انسان اس مذکورہ بالا محنت و مشکل کا سامنا کچھ زیادہ ہی کر رہا ہے۔ کیونکہ عصر حاضر میں موجود سوشل میڈیا کی یلغار نے ہر کس و ناکس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تیز رفتار ذرائع ابلاغ نے بلاشبہ دنیا کو گلوبل ولیج  میں تبدیل کر دیا ہے لیکن  اعتدال ہر شے میں ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا اعتدال سے ہٹ کر جب نوجوان نسل سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے تو فائدہ کے بجائے نقصان کا سامنا کرنے لگتی ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہیں اور کم عمری اور ناتجربہ کاری کے باعث یہ تمیز کرنا کہ تفریح کا کون سا ذریعہ ان کے لئے مفید ہے اور معلومات کی کون سی حد ان کے لئے ضروری ہے ، مشکل ہو جاتا ہے۔ 
 یہی وجہ ہے کہ جب نوجوان طبقے کا ایک بڑا حصہ خدائی احکامات سے رو گردانی کر کے اور اپنی خواہشات کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے لگتا ہے تو پھر ہر طرف فساد برپا ہونے لگتا ہے۔ جہاں اس کی اپنی زندگی میں بے سکونی اور بے چینی و اضطراب پیدا ہو جاتا ہے وہیں پورامعاشرہ بھی بے اعتدالیوں اور دیگر خرابیوں کا حامل ہو جاتا ہے۔
  مسلم معاشرہ کی وہ عمدہ صفات جو ایثار، قربانی، ادب و احترام ، انصاف، حقوق کی منصفانہ تقسیم اورصلہ رحمی پرمشتمل ہوا کرتی تھیں اور ہمارے معاشرہ کی ثقافت اور رہن سہن کی بنیاد تھیں وہ آج سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔  ان اثرات نے بزرگوں سے مہذب رویے اور شفقت جیسی خوبصورت صفات چھین لی ہیں اور نوجوانوں سے  جذبہ ٔ  تعمیر و عمل اور برداشت کے رویوں کو ختم کر دیا ہے۔ 
 مسلم معاشرہ ہو یا کوئی اور گروہ، دین ہر جگہ کچھ اصول و ضوابط لاگو کرتا ہے اور سوشل میڈیا یعنی یوٹیوب چینل، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اب ایسے افراد حاوی ہوتے جارہے ہیں جن کو اخلاقیات، شائستگی اور ذمہ دارانہ رویوں کی کوئی آگا ہی نہیں۔ اس کے بر عکس ماضی میں ذرائع ابلاغ پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور ہر معاشرہ اپنے مہذب اور ثقافتی رجحانات کے اعتبار سے ذرائع ابلاغ کو فروغ دیتا تھا۔
  اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو معاشرتی و سماجی بہتری اور نکھار کا یہی ذریعہ تمام ذرائع ابلاغ سے تیز تر ہے۔ لیکن ، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ’’بندر کے ہاتھ میں چھری‘‘ ہو تو اس کا نفع بخش استعمال نہیں ہوتا۔ 
 آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت پانے والوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے ، خواہ اپنی ثقافت و اقدار کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔  نپولین نے ایک خوبصورت مثال دے کر سمجھایا تھا کہ ’’اگر ہرنوں کے غول کی قیادت شیر کررہا ہو تو ہرن بھی جنگ کرنا یا لڑنا سیکھ جاتے ہیں ، لیکن اگر شیروں کے گروہ کا لیڈر ہرن ہو تو  شیر اپنا دفاع بھول کر ہرنوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔‘‘ گویا بہترین معاشرتی ترقی کے لئے یہ احتساب ضروری ہے کہ سوشل میڈیا  پر کون لوگ افرادِ معاشرہ کو متاثر کررہے ہیں ۔ بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا ۔ ہر گھر کے سربراہ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیر پرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی لپیٹ میں صرف نوجوان  ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ ان منفی اثرات نے بچوں سے بھی ان کی معصومیت چھین لی ہے ۔  ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دینے کے سبب ہم روزمرہ کاموں اور عبادت کو بہتر انداز میں نہیں کررہے ہیں اور ایک عجیب غفلت کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔  آخر میں بس یہی توجہ دلانا چاہوں گی:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK