فرائض کے ساتھ ساتھ ان سے پہلے یا بعد کچھ سنتیں اور نوافل مقرر کئے گئے ہیں، اسی طرح بعض نوافل کیلئے خاص اوقات احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں، ان سنتوں اور نوافل کی بھی بڑی اہمیت ہے
EPAPER
Updated: April 28, 2023, 12:19 PM IST | Mufti Ghulam Mustafa Rafiq | Mumbai
فرائض کے ساتھ ساتھ ان سے پہلے یا بعد کچھ سنتیں اور نوافل مقرر کئے گئے ہیں، اسی طرح بعض نوافل کیلئے خاص اوقات احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں، ان سنتوں اور نوافل کی بھی بڑی اہمیت ہے
فرائض کے بارے میں تو ہر مسلمان آگاہ ہے کہ دن رات میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور یہ پانچ نمازیں اسلام کااولین رکن ہیں، یہ بات بھی ہر مسلمان کے علم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معراج کی شب نبی کریم ﷺ کو اس امت کے لئے پچاس نمازیں عطافرمائی تھیں، پھر ان میں تخفیف ہوتی رہی، یہاں تک کہ پانچ باقی رہ گئیں، ساتھ ہی یہ ارشاد ہوا کہ ’’آپ ﷺ کے لئے اور آپﷺ کی امت کے لئے عمل کے اعتبار سے یہ پانچ نمازیں ہیں، البتہ ان کی ادائیگی پر ثواب پچاس نمازوں کا ہی ملے گا‘‘۔ یہ اللہ کی خصوصی رحمت ہے، اس امت کے لئے۔
ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ نے ان نمازوں کو انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بھی قرار دیا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: پانچ نمازیں، اسی طرح ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کی نماز اس درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتی ہیں، جب تک کہ مسلمان گناہ ِکبیرہ کا ارتکاب نہ کرے، یعنی نمازوں کی ادائیگی سے ہی اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرماتا رہتا ہے،یہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی پر ایک فریضے کی ادائیگی بھی ہوجاتی ہے، ثواب بھی مل جاتاہے اور ساتھ ہی یہ عبادت گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے۔ ان فرائض کے ساتھ ساتھ ان سے پہلے یا بعد کچھ سنتیں اور نوافل مقرر کئے گئے ہیں، اسی طرح بعض نوافل کے لئے خاص اوقات احادیث میں ذکر کئے گئے ہیں، ان سنتوں اور نوافل کی بھی بڑی اہمیت ہے۔
فرض نمازوں کے علاوہ جن نمازوں کا نبی کریم ﷺ نے خود اہتمام فرمایا، ترغیب دی، تاکید فرمائی، وہ سنتیں کہلاتی ہیں، پھر علمائے کرام نے ان میں دو اقسام ذکر کی ہیں، ایک کو سنت ِ مؤکدہ کہتے ہیں اور دوسری کو سنت ِ غیرمؤکدہ کہتے ہیں۔ سنت ِ مؤکدہ وہ نمازیں کہلاتی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ان کے پڑھنے کا بڑا اہتمام فرمایا، کسی شدید عذر کے بغیر کبھی بھی انہیں ترک نہیں فرمایا۔ حدیث میں ان کیبڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، ان سنتوں کا بغیر کسی عذر کے چھوڑنا گناہ ہے، ان کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ سنت ِ غیر مؤکدہ وہ نمازیں ہیں کہ بسا اوقات رسول اللہ ﷺنے انہیں ترک بھی فرمایا، ان کا حکم یہ ہے کہ ان نمازوں کا پڑھنا ثواب ہے اور ترک کرنے سے گناہ نہیں ہوگا۔ بہر حال سنت مؤکدہ کی بڑی فضیلت ہے۔
سنّتِ مؤکدہ کا اہتمام اور جنت میں گھر کی بشارت:
اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے وہ مشہور روایت نقل کی گئی ہے جو صحیح مسلم میں امّ المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو آدمی دن رات میں بارہ رکعتیں ادا کرے گا، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ احادیث میں صراحت ہے کہ اس سے مراد فرض نماز کے علاوہ نماز ہے، یعنی سنتیں مراد ہے۔
یہ بارہ رکعتیں کون سی ہیں؟ فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ، ظہر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے فرض کے بعد دو رکعتیں، مغرب کی نماز کے بعد کی دو رکعتیں اور عشاء کی نماز کے بعد دو رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں۔ یہ بارہ رکعتیں بن جاتی ہیں۔یہ تفصیل خود احادیث میں رسول اللہ ﷺ سے نقل کی گئی ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو فرض نماز کے ساتھ ان سنتوں کا بہر صورت یعنی ضرور بہ ضرور اہتمام کرنا چاہئے۔
سنن اور نوافل کے ذریعے قیامت میں فرائض کی کمی کو پُرکیاجائے گا: ایک تابعی جن کا اسم گرامی حُرَیث بن قبیصہ ہے، فرماتے ہیں، میں مدینہ منورہ آیا، اور میں نے اس موقع پر اللہ سے دعا کی کہ :اے اللہ ! مجھے کسی نیک صالح آدمی کا ساتھ نصیب فرما،چنانچہ ہوا یہ کہ اللہ نے مجھے حضرت ابوہریرہؓ سے ملاقات کی دولت نصیب فرمائی، میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ میں اللہ سے یہ دعا کرکے آیا تھا کہ مجھے نیک اور صالح آدمی کی رفاقت ملے، چنانچہ میں آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں، میری گزارش ہے کہ مجھے اللہ کے رسولؐ کے فرامین میں سے کچھ سنائیں جو آپ نے اللہ کے رسولؐ سے سنے ہوں، اللہ مجھے ان سے نفع دے گا۔ حضرت حریث ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نے مجھے جو حدیث اس موقع پر سنائی وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا، میں نے رسولؐ اللہ سے یہ سنا ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے اعمال میں سے نماز کا حساب ہوگا، اگر نماز صحیح اور کامل نکلی تو یہ آدمی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگیا، اور اگر نماز میں کمی کوتاہی ہوئی ،تو یہ آدمی بڑا خسارہ اٹھائے گا، البتہ کسی آدمی کی فرض نماز میں کچھ کمی نکلی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا، میرے اس بندے کے اعمال میں سے فرائض کے علاوہ نمازیں دیکھو یعنی سنن ونوافل دیکھو، اگر ا س کے اعمال میں سنتیں ہیں، نوافل ہیں، تو ان سنتوں اور نوافل سے فرائض میں جو کمی ہے، اسے پورا کردیا جائے گا اور یہ آدمی نجات پاجائے گا۔ پھر نماز کے بعد تمام اعمال میں اسی طرح کا حساب ہوگا کہ فرض میں جو کمی ہوگی، اسے فرض کے علاوہ سے پورا کیا جائے گا، مثلاً زکوٰۃ فرض تھی، اس میں کمی ہوئی تو ایسے شخص کے صدقہ و خیرات سے زکوٰۃ کی کمی کو پورا کیا جائے گا، اسی طرح تمام فرائض کی کمی کو اس عمل میں فرض کے علاوہ جو آدمی نے انجام دیا ہوگا، اُس سے فرض کی کمی کو مکمل کردیا جائے گا۔
یہ روایت ہم سب کے لئے ایک بڑاسبق اور تعلیم ہے کہ ہم سنتوں اور نوافل کا بھی اہتمام کرنے والے بن جائیں، خاص طور پر سنت مؤکدہ تو کسی صورت نہ چھوڑی جائے، تاکہ قیامت میں ہمارے نامہ ٔ اعمال میں فرائض کی کمی کو پُر کرنے کے لئے ہمارے پاس سنتوں اور نوافل کی صورت میں ایسا ذخیرہ موجود ہو جو ہماری کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ بن سکے۔
غور کیجئے کہ اسلام میں اُن اہل ایمان کیلئے جو نمازوں کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں، کتنی سہولت رکھی گئی ہے۔ اللہ ہم سب کو سنتوں کی پابندی کرنے والا بنائے اور جو فضیلتیں رسول اللہ ﷺ نے سنتوں کے اہتمام پر بیان فرمائی ہیں، وہ ہمیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)