سورۃ الشمس میں سورج، چاند، دن، رات، زمین اور آسمان جیسی عظیم مخلوقات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اور اس کے بعد نفس انسانی کے متعلق وہ بڑی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ یہ انسانی نفس کس قدر اہمیت کا حامل ہے جو کہ رب کائنات کی ایک بہت بڑی تقدیر (منصوبہ بندی) کا حصہ ہے۔
قرآن شریف ۔ تصویر : آئی این این
قرآن مجید، اللہ کی آخری، مکمل اور ہر قسم کی تحریفات سے محفوظ کتاب ہے۔ یہ کتاب تمام انسانوں کے لئے قیامت تک کے زمانے پر محیط تمام ادوار کے لئے ہے۔ اس آسمانی صحیفہ ٔ ہدایت میں ہر قوم اور ہر ملک کے ہر انسان کے لئے جامع اور کامل ہدایت موجود ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں تمام انسانوں کی صحیح رہنمائی کرتی ہے۔ قرآن مجید کے علاوہ پوری دنیا میں ایسی مکمل رہنمائی کے لئے اور کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔
قرآن کے خزانے بہت عظیم ہیں اور وہ ہر دور کے ہر انسان کے لئے ہیں۔ قرآن صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ ہر انسان کے لئے ہے۔ جس طرح قرآن مسلمانوں سے خطاب کرتا ہے اسی طرح وہ دنیا کے عام لوگوں سے بھی خطاب کرتا ہے۔ یٰآیّھاالنّاس، ربّ النّاس، الانسان تقریباً ۵۰۰؍ بار قرآن مجید میں آیا ہے۔ چنانچہ نزول قرآن سے شروع کرکے اب تک ہر دور میں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔
جسم اور روح کے اتصال کا نام زندگی ہے۔ ہر جاندار میں یہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں لیکن تمام جاندار اشیاء میں ایک تیسری چیز نفس بھی ہوتی ہے۔ یہ نفس انسان کے علاوہ دیگر جانداروں میں بھی ہوتا ہے ۔ مثلاً غصہ کرنا تو یہ بیل اور بندر میں بھی ہوتا ہے لیکن انسان میں یہ اور دوسری نفسیاتی خصوصیات موجود ہوتی ہیں مگر انسان کو عقل و شعور عطا کرکے خیر و شر میں تمیز کی صلاحیت سے بھی نوازا گیا ہے۔ یہ عقل و شعور ہی تو نفس ہے۔ نفس کا حصہ ہے جو سوچتا ہے، فیصلے کرتا ہے، کائنات میں اپنا مقام متعین کرتا ہے اور سوچ سمجھ کر جس طرح چاہتا ہے وہ اپنی زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے اور کرسکتا ہے۔ اس کو کلی اختیار ہوتا ہے اور اس کائنات کی دیگر تمام اشیاء ایک حد تک انسان کی اختیارکردہ راہوں میں اس کی موافقت کرتی ہیں۔
لیکن انسان کی عقل محدود ہے۔ زندگی میں بے شمار ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن میں انسانی عقل بھٹک جاتی ہے اور حقیقتاً وہ مسائل انسانی عقل کے دائرہ کار سےباہر ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کائنات کس طرح وجود میں آئی، انسان کو کس طرح اور کس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس طرح کے تمام سوالات ہیں جو عقل کے دائرۂ کار سے ماوراء ہیں۔ پھر ہر انسان کا معیار عقل بھی الگ الگ ہوتا ہے اور ہر انسان کی سوچ پر اس کے ماحول کا بھی اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر عقلمند کی عقل صحیح نتیجہ بھی اخذ کرے گی۔
بلاشبہ دین کے اختیار کرنے کے معاملہ میں عقل کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ اس کے اصول و مبادیات کی تحقیق میں ہر انسان خودمختار ہے۔ چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو رد کردے، لیکن دین کے اصول اور عقائد و احکام کو عقل کے حوالہ نہیں کیا گیا ، بلکہ عقل کو وحی کے تابع کرکے انسان کو غور و فکر کی ترغیب دی گئی۔ خالق کائنات نے اپنے خاص فضل و کرم سے انبیاء پر وحی نازل کرکے انسان کو کائنات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے اور صحیح مقام کی نشاندہی بھی کردی ہے۔ لیکن اس صحیح مقام تک پہنچنے کیلئے انسان اپنی حد تک بالکل خودمختار ہے۔ وہ چاہے تو اسے قبول کرے اور چاہے تو اس کو رد کردے۔ اسی ایک نکتے پر تو تمام ثواب اور عذاب ہے۔
انسانی زندگی میں انسان کے نفس کی اہمیت کا ذکر اس طرح کیا گیا :
’’پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی، بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)، اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘
(الشمس: ۷؍تا۱۰)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوقات اور کائنات کے مناظر کی قسم کھاتا ہے۔ اس طرح قسم کھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مخلوقات عظیم قدر و قیمت کی حامل ہیں۔ نفوس انسانی ان کی طرف متوجہ ہوں اور ان پر غور و فکر کریں۔ کائنات کے مناظر نفس انسانی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کائنات کے مناظر کی طرف نفس انسانی کو مختلف طریقوں سے متوجہ کرتا رہتا ہے۔ سورۃ الشمس میں سورج، چاند، دن، رات، زمین اور آسمان جیسی عظیم مخلوقات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے بعد نفس انسانی کے متعلق وہ بڑی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ یہ انسانی نفس کس قدر اہمیت کا حامل ہے ، جو کہ رب کائنات کی ایک بہت بڑی تقدیر (منصوبہ بندی) کا حصہ ہے۔ جس کو پوری طرح سمجھنا انسان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے اور اس کے بہت سے زاویے اور پہلو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے انسانوں کو سمجھائے ہیں۔
سورہ البلد کی آیت نمبر ۱۰؍ میں فرمایا گیا:
’’اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔‘‘
سورہ دہر ، جس کا دوسرا نام انسان بھی ہے، کی آیت ۳؍ میں فرمایا گیا: ’’بے شک ہم نے اسے (حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی۔‘‘
یہ دونوں آیات مل کر اسلام کے نفسیاتی نظریہ کے اصول کو واضح کرتی ہیں۔ نیز یہ ان آیات سے مربوط اور ان کے مفہوم کی تکمیل کرتی ہیں جو انسانی فطرت کے دورُخا ہونے (خیر و شر کا میلان رکھنے) کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ان مخفی فطری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ نفس انسانی میں ایک اور قوت بھی موجود ہے جو فہم و ادراک کی حامل ہے اور عمل کی طرف اس انسان کو متوجہ کرتی ہے ۔ ذمہ داری اور مسئولیت کا دارومدار اسی قوت پر ہے اور یہ قوت بھی نفس انسانی کا جزو ہے۔ جس شخص نے بھی اپنی ان صلاحیتوں (نفس) کی تطہیر کی یعنی تزکیۂ نفس کو اپنایا اور خیر کی صلاحیتوں کو بڑھایا اور شر (نفس امارہ) کی صلاحیتوں کو دبانے میں کامیاب ہوا وہ فلاح پاگیا اور بامراد ہوا:
’’بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)، اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘ (الشمس۔۹۔۱۰)
اختیار و عمل کی یہ قوت جو نفس انسانی میں ودیعت (Feed) کی گئی ہے، ذمہ داری اور مسئولیت کا تعلق اسی سے ہے۔ اس نفسیاتی صلاحیت کے ذریعہ انسان اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق خیر و شر کے میدان میں اپنے اعمال کو ایک خاص رخ دیتا ہے! یہ آزادی ہے ۔ یہی تو نفس انسانی کا خودمختار (Autocrat) ہونا ہے۔ اسی سے تو ذمہ داری مرتب ہوتی ہے ۔ یہی تو عمل کرنے کی آزادی اور قدرت ہے جس کی وجہ سے انسان ذمہ دار اور مکلف بنتا ہے۔ اور یہی تو جنت اور دوزخ کے بنانے کا باعث ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر وحی نازل فرما کر انسان کی مدد فرمائی ہے۔ اس وحی کے ذریعے زندگی کی مشکل راہوں میں انسان کی رہنمائی کی گئی ہے۔ انسانوں کے معاملے میں یہ سب کچھ اللہ کی مشیت ہے اور اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی مشیت اور اس کے عمومی منصوبے (تقدیر) کو پورا کرنے والا ہوتا ہے۔