Inquilab Logo

مدھیہ پردیش، راجستھان اورچھتیس گڑھ میں ہار جیت کا مطلب

Updated: September 24, 2023, 3:02 PM IST | Hari Mohan Mishra | Mumbai

۲۰۱۸ء کے اسمبلی اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات سے آج کے حالات کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا، آج جو اسمبلی میں جیتے گی، لوک سبھا میں بھی اس کے جیتنے کے امکانات رہیں گے۔

Priyanka Gandhi with Bhupesh Baghel. Photo: INN
پرینکا گاندھی بھوپیش بگھیل کےساتھ ۔ تصویر:آئی این این

ایسے ریاستی انتخابات کم ہی ہوتے ہیں، جن کے نتیجوں میں مرکزکی کرسی کا فیصلہ کرنے کے امکانات اور خدشات وابستہ رہتے ہوں ۔ فی الحال ۵؍ ریاستوں میں انتخابات بالکل قریب ہیں جنہیں ملک کے عام انتخابات سے قبل کا سیمی فائنل قرار دیا جارہا ہے۔ ان میں میزورم اور تلنگانہ جیسی چھوٹی ریاستیں بھی شامل ہیں جو اس مرتبہ سیاسی لہجہ اور مزاج بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں ، لیکن اصل جنگ کے میدان ہندی پٹی کی ریاستیں یعنی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ ہیں ۔ ان ریاستوں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ پارلیمانی انتخابات پر اپنے اثرات مرتب کر سکتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی اور مغربی ہندوستان کے اس خطے میں وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بی جے پی کو ۲۰۱۴ء کے مقابلے۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ ووٹ ملے تھے۔ ایسے میں اس مرتبہ وہ اس خطے سے کچھ بھی گنوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں اس کا مقابلہ براہ راست کانگریس سے ہے۔ انہی بنیادوں پر دونوں جماعتوں کی سیاسی قوت کا امتحان ہوگا۔ اسلئے ان ریاستوں کے سپہ سالاروں پر دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
پچھلی بار ۲۰۱۸ء کے اسمبلی انتخابات میں ان تینوں ہی ریاستوں میں جیت کے باوجود، پارلیمانی انتخابات میں کانگریس بری طرح ہار چکی تھی۔ یہاں بی جے پی نے ایک طرح سے کلین سویپ کیا تھا، لیکن آج۲۰۱۹ء کے بعد سے ندیوں میں کافی پانی بہہ چکا ہے اور ہوا کا رخ بھی بدلا ہے۔ ایسے میں دونوں جماعتوں اور ان کے سپہ سالاروں کے سامنے اہم چیلنج اس بات کا ہے کہ وہ ریاستی انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں اور اس کی مدد سے عام انتخابات کیلئے ٹھوس زمین تیار کریں۔
 دراصل مہنگائی، بے روزگاری اور چھوٹی صنعتوں کے بند ہونے اور کاروبار میں کساد بازاری کی وجہ سے مرکز کے خلاف حکومت مخالف لہر کی گرمی شاید ریاستوں سے زیادہ ہے۔ رائے عامہ کے کئی حالیہ جائزوں میں نہ صرف ان مسائل پر لوگوں کی تشویش میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے بلکہ وزیر اعظم مودی کی مقبولیت کے اعداد و شمار بھی پہلے کے مقابلے کم ہوئے ہیں ۔ اس کے برعکس، کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی مقبولیت میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے (خاص طور پر ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد)بلکہ’انڈیا اتحاد‘ کے ذریعہ مضبوط دعویداری بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ’مودی کے مقابلے کون‘ کا سوال بھی کچھ حد تک ماند پڑ جائے۔ یہی نہیں ، کانگریس اور اپوزیشن اتحاد اب کھل کر بدعنوانی، کرونی کیپٹل ازم اور بڑھتی عدم مساوات کا مسئلہ اُٹھا کر سیاسی بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے بی جے پی انڈیابنام بھارت، رام مندر کی تعمیر اور ایک ملک، ایک انتخاب جیسی اپنے انداز کی قوم پرستی کا بیانیہ تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کی کوششیں ایسے ہی کچھ دیگر مسائل اور سوشل انجینئرنگ پر بھی نظر آتی ہیں۔
اس لحاظ سے ہندی پٹی کی ان ریاستوں میں داؤ بہت زیادہ ہے۔ ان ریاستوں کی کل ۶۵؍ پارلیمانی نشستوں (راجستھان ۲۵؍، مدھیہ پردیش ۲۹؍ اور چھتیس گڑھ۱۱؍) میں سے۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں ، بی جے پی کو۶۱؍ سیٹیں اور اس کی اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے راجستھان کے ہنومان بینی وال کو ایک سیٹ ملی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ناگور سیٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان ہنومان بینی وال تینوں زرعی قوانین کے خلاف چلنے والی کسان تحریک کے دوران این ڈی اے سے الگ ہوگئے تھے۔ اب بی جے پی نے کانگریس کی سینئر لیڈر جیوتی مردھا کو، جو ۲۰۱۴ء اور۲۰۱۹ء میں ناگور سے ہاری تھیں ، اپنے ساتھ ملا لیا ہے تاکہ جاٹوں کی ناراضگی کو کچھ دور کیا جاسکے۔ ایسے میں بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی کارکردگی کو دُہرائے یا نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرے۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ۲۰۱۹ء بی جے پی نے تقریباً۴۵؍ سیٹوں پر۲؍ لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن باقی سیٹوں پر اس کی جیت کا فرق ایک لاکھ یا پچاس ہزار سے کم تھا۔ یہ الیکشن پلوامہ سانحہ اور پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ہوا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس مرتبہ وہ حالات نہیں ہیں۔ ایسے میں اگرریاستی انتخابات میں اس کی کارکردگی خراب ہوئی تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس ریاستی انتخابات میں بہتر کارکردگی نہ صرف اسے پارلیمانی انتخابات کی تیاری میں مدد دے سکتی ہے بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے کہ مودی کی مقبولیت برقرار ہے۔
دوسری طرف کانگریس کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ اسے ان پارلیمانی سیٹوں میں سے آدھی یا اس کے آس پاس حاصل کرنی ہیں ، لیکن اس سے قبل اس کیلئے ریاستی انتخابات میں بھی کامیابی بہت ضروری ہے۔ اگر وہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اپنی حکومتیں بچا لیتی ہے اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو اس کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے ہیں اور انڈیا اتحاد کی قیادت پر اس کا دعویٰ مضبوط ہو سکتا ہے۔ ویسے اگر کانگریس ان میں سے ۲؍ ریاستیں بھی جیت جاتی ہے تو بھی قومی سطح پر اس کیلئے اچھی ماحول سازی ہوسکتی ہے۔ اب تک کے امکانات اور انتخابی جائزے بتاتے ہیں کہ کانگریس چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ چھتیس گڑھ میں وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کی حکومت اس وقت نہ صرف مضبوط پوزیشن میں نظر آرہی ہے بلکہ بی جے پی کے بے چہرہ ہونے کا فائدہ بھی اسے مل رہا ہے۔ مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان مسلسل عوامی اسکیموں کا اعلان کر رہے ہیں ، لیکن ان کے سامنے دو واضح چیلنجز دکھائی دے رہے ہیں ۔ اول یہ کہ تقریباً بیس سال تک اقتدار میں رہنے کی وجہ سے انہیں حکومت مخالف رجحان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوم یہ کہ بی جے پی میں ان کے علاوہ ایسے کئی لیڈر ہیں جو پارٹی پر اپنا دعویٰ ٹھونکتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ انہی لیڈروں کے درمیان کانگریس سے الگ ہو کر بی جے پی میں جانے والا جیوترادتیہ سندھیا کا خیمہ کچھ غیرمطمئن سا نظر آرہا ہے۔ اس خیمے سے تعلق رکھنے والے کئی بااثر لیڈر بی جے پی سے الگ ہو کر کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس سے وابستہ ایک چھوٹے سے گروپ نے بھی اپنی ایک الگ جماعت ’ جن ہت پارٹی‘ بنا لی ہے۔ انتخابات میں اس کے اثرات کیا ہوں گے یہ کہنا آسان نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ شیوراج حکومت کے خلاف عدم اطمینان عوام میں بھی ہے اور لیڈروں میں بھی ہے۔
اس کے برعکس کانگریس میں کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ کی جوڑی کے درمیان بظاہر کوئی اختلاف نظر نہیں آرہا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کرناٹک کی طرح مدھیہ پردیش میں بھی شیوراج حکومت کی بدعنوانی کے مسئلے کو انتخابی موضوع بنا رہی ہے۔ راجستھان میں کانگریس کے خلاف حکومت مخالف رجحان ہوسکتا ہے اور ریاست میں یہ روایت بھی رہی ہے کہ ہر الیکشن کے بعد حکومتیں بدلتی رہی ہیں ، لیکن وہاں پر کانگریس کو راحت اس بات سے مل سکتی ہے کہ بی جے پی کی طرف سے کوئی چہرہ سامنے نہیں کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کچھ الگ تھلگ سی دکھائی دے رہی ہیں ۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت مسلسل فلاحی اسکیموں کی برسات کرکے عوام کو رام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تینوں ہی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اشوک گہلوت، بھوپیش بگھیل اور شیوراج سنگھ چوہان کا تعلق او بی سی ذاتوں سے ہے۔ یہ تینوں اپنے اپنے طریقے سے ووٹروں کے ایک بڑے حصے کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کیلئے بہت سی اسکیمیں لے کر آئے ہیں ۔ گہلوت نے حال ہی میں ریاست کی بنیادی او بی سی ذاتوں کیلئے ریزرویشن کا اعلان کیا ہے۔ بنیادی او بی سی وہاں پر وہ لوگ کہلاتے ہیں جو جاٹوں کو او بی سی کی فہرست میں شامل کرنے سے پہلے اس زمرے میں تھے۔ کانگریس پہلے ہی ذات پات کی مردم شماری کا مسئلہ اٹھا رہی ہے۔ اب بی جے پی کا فوکس بھی او بی سی پر ہے۔۱۷؍ ستمبر کو وزیر اعظم مودی کے یوم پیدائش کے بعد سے مرکز کے تمام ۷۰؍ وزراء مختلف ریاستوں میں ’وشوکرما اسکیم‘ کا آغاز کریں گے۔ یہ بھی واضح رہے کہ حال ہی میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی ذات پات کے امتیاز کا مسئلہ اٹھایا ہے، جو آر ایس ایس کے سابقہ موقف سے کچھ مختلف ہے۔
یہ سب اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کا داؤ کتنا اونچا لگا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کس کی راہیں آسان کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK