Inquilab Logo

منٹو کے یہاں تشبیہ غیر ضروری تفصیلات سے بچنے کا ایک فنکارانہ وسیلہ ہے

Updated: January 17, 2021, 2:42 PM IST | Mohammed Aslam Parvez

برسی پر خصوصی مضمون جس میں مثالوں کے ذریعہ یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ منٹو کے افسانوں میں تشبیہات ’’ضرورت افسانہ‘‘ کے تحت آئی ہیں، جن کا افسانے کی تکنیک، موضوع اور کردار سے گہرا تعلق ہے

Manto - Pic : INN
منٹو ۔ تصویر : آئی این این

تشبیہات و استعارے عموماً افسانوی تخلیق کو پُر کشش اور دلچسپ بنانے کے علاوہ اُسے معنوی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں جو شعوری یا غیر شعوری طور پر افسانہ نگار کا مطمح نظر ہوتا ہے لیکن ایک طرف یہ تشبیہات افسانہ نگار کی تخلیقی وتخیلی رنگا رنگی کی گواہ بن جاتی ہیں تو دوسری طرف ذہنی افلاس کو چھپانے کا نقاب بھی … تشبیہات چونکہ فنکار کو اپنی جولانی اور طباعی کا جوہر دکھانے کا پورا موقع اور تخیل کے اُڑن کھٹولے میں اڑنے کی پوری آزادی فراہم کرتی ہے لہٰذا افسانہ نگار کی کوشش دور کی ایسی کوڑی لانے کی ہوتی ہے جو پڑھنے والے کو مبہوت و متحیر کر دے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہی وہ موڑ ہے جہاں بیشتر لکھاری لڑکھڑاتے بلکہ منہ کے بل گرتے نظر آتے ہیں ۔ گویا تشبیہات فن کار کی تتخیلی مفلوک الحالی اور تخلیقی  ثروت مندی کو طشت از بام کرنے کا حیلہ بھی بن جاتی ہیں۔ جہاں تک منٹو کا تعلق ہے اس کیلئے تشبیہات نہ تو فنی آرائش کاذریعہ ہیںاور نہ ہی شخصیت کے مظاہرے کا وسیلہ۔ منٹو کی فنی بوطیقا میں یہ کوئی روندے ہوئے راستے کا سفر نہیں کہ افسانے میں استعمال ہونے والی تشبیہات، استعارات اور علامات کے توسط سے وہ بعض ایسے منطقوں  اور جزیروں تک پہنچ جاتا ہے جنہیں انسانی قدموں اور جذبوں نے ابھی تک چھوا نہیں تھا۔ منٹو کے فنی کینواس پر نمودار ہونے والی ہر تشبیہ ایک دستخط ہے ،جس کے پیچھے منٹو کا تخلیقی وجود ایک اکائی کے طور پر موجود ہے۔ ان تشبیہات میںمختلف، متنوع اور متضاد احساسات،کیفیات، جذبات اور تصورات کا اظہار تو ہے لیکن منٹو کی شخصیت کا مظاہرہ کہیں نہیں۔  اسی لئے دستخط ہونے کے باوجود ان تشبیہات کا حُسن خود مکتفی اور قائم بالذات ہے ۔
اپنی تمام تر Pecularitiesکے باوجود افسانوی فریم میں وضع کی گئی منٹوکی تشبیہات خودمختار اکائی  ہیں نہ ہی کسی خود کفیل مشین کا مجرد کل پُرزہ ۔  افسانوی تکنیک ،  زبان ، موضوع ، کردار اور افسانے کی آب و ہوا سے اُن کا وہی رشتہ ہوتا ہے جو کھال کا جسم سے۔ انہیں کیلے کے چھلکے کی طرح افسانے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا مطالعہ افسانوی فریم ورک سے باہر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ تو کیا منٹو کے آرٹ کو اس کی تشبیہات کے حوالے سے سمجھنا گمراہ کن ہو سکتاہے؟ زیر ِنظر مضمون میںیہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ افسانوی فریم ورک میں تشبیہات کے ساتھ منٹو کیا سلوک روا رکھتا ہے؟ اس کا منصب اور حدود کیا ہیں؟ کیامنٹو کے آرٹ میں تشبیہات فنی اظہار کا معجزاتی کرشمہ ہیں یا افسانوی مشین کا محض ایک کل پُرزہ...؟  
 (۱) وہ کسی بات کو چھپا نہیں سکتا تھا اور اگر چھپانے کی کوشش کرتا تو اس کی وہی حالت ہوتی جو آندھی میں صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی عورت کی ہوتی ہے۔(سجدہ)
 (۲) میرے قدموں کے نیچے خشک پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سوکھی ہوئی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ (دیوانہ شاعر )
 (۳) مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ آبی رنگوں کی ایک تصویر ہے جو بارش میں چھت کے ٹپکنے کے باعث اپنے رنگ کھو چکی  ہے۔ (پراسرار نینا) 
 (۴) ایسے لمحات جب اس پر طاری ہوتے تو اس کا چہرہ ایسی رنگت اختیار کر لیتا تھا  جیسی تین دِن کی باسی شراب میں بے جان سوڈا گھولنے سے ہوتی ہے۔ (سوراج یلئے )
 (۵)   مروڑیاں اس کے ہاتھ سے کچے فرش پر گر رہی تھیں اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اناج رو رہا ہے۔ یہ مروڑیاں اس کے آنسو ہیں ۔‘‘(پہچان) 
محولہ بالا اقتباس میں درج ہونے والی ہرتشبیہ افسانے کے جمالیاتی اور تخلیقی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ان میں اس عہد کی اور فن کی روایت کے ساتھ ساتھ منٹو کی انفرادی تخلیقی شخصیت کے نقوش بھی ثبت ہیں۔ منٹوکے حوالے سے یہ بات بار بار کہی گئی کہ وہ ایک اختصار پسندفنکار تھا۔ جن چیزوں کو بیان کرنے کے لئے دوسرے افسانہ نگار صفحے کہ صفحے لگاتے ہیں منٹو اسے چند فقروں میں بیان کر دیا کرتا تھا۔ اُسے تشبیہات تلاشنے اورتراشنے کا چسکا نہیں تھا۔ اُس کے تخلیقی عمل کے دوران ایسے لمحات آتے ہیں جب تشبیات استعمال کرنے پر وہ خود کو مجبور پاتا ہے۔ منٹو کے اسلوب میں یہ ایک ایسے کا ر آمد آلے کی مانند ہے جس کی مدد سے وہ زندگی کی تفصیلات و زمانے کی جزئیات اور مرئی و غیر مرئی حقائق کو کم سے کم لفظوں میں سمیٹ دیا کرتا ہے۔ منٹو کا تخلیقی ذہن کس طرح اپنےدل نشیں اور تہہ دار اسلوب میں معنی کی مختلف جہات کو سمو دیتا ہے، تشبیہات اُس کی نہایت عمدگی سے نشاندہی کرتی ہیں۔ چونکہ منٹو کی فنکارانہ دلچسپی صرف اپنے تجربے کو آرٹ کے فارم میں ڈھال دینے میں تھی اسی لئے اس نے ان تمام چیزوں کو افسانہ بدر کرد یا کرتاتھا جو اس کی Story telling  میںحارج ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود منٹو کے افسانوں، خاکوں، مضامین  اور ڈراموں کے دامن انوکھی، نادر اور تحیر خیزتشبیہات اور استعارات کے رنگین پتھروں سے پُر نظر آتے ہیں تو وہ کوئی سجاوٹ کا سامان نہیں بلکہ افسانوی ساخت کا اٹوٹ حصہ ہیں جسے افسانوی سیاق نے جنم بھی دیا ہے اور ترتیب بھی... منٹوکے یہاںتشبیہ غیر ضروری تفصیلات ،جزئیات، منظر نگاری، سماجی وثقافتی عکاسی سے بچنے کا ایک فنکارانہ وسیلہ ہے، جس کی مثالیںاس کے افسانوی اسلوب میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
(۱) ہر چیز بوجھل دکھائی دیتی تھی، جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہو ۔(دھواں) 
(۲) موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی ۔وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گائوں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کر دیئے ہیں۔ (موذیل)  
منٹو کی نادر الوجود تشبیہات اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو پرچاتی اور مسرت تو بخشتی ہی ہیں ساتھ ہی انہیں ایک حیران کُن تجربے سے شرابور بھی کرتی ہیں۔ تشبیہات کے انتخاب میں منٹو کی فنی جدوجہد یہ رہتی ہے کہ وہ انہیں افسانوی فضا میںپوری طرح جذب کر دے۔ جدوجہد یہ لفظ یہاں شاید مناسب نہیں ہے کہ یہ اتنے سہج اور سرل ہیں کہ کہیں بھی کسی بھی نوع کی دانستہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔ منٹو کی تشبیہات کو ہم بغیر کسی انتخابی کوشش کے نقل کریں جو مطالعے کی ورق گردانی میں اچانک سامنے آ جاتی ہیں تو ہمیں خود اندازہ ہو جائے گا کہ منٹو کے پاس تشبیہات گڑھنے کا کوئی سانچہ نہیں تھا اور نہ ہی منٹو کی زنبیل میں گڑھی گڑھائی، ریڈی میڈ تشبیہات کا ذخیرہ تھا جو وہ موقع کی مناسبت سے اپنی تحریروں میں چست کر دیا کرتا تھا۔ تشبیہات سے منٹو کا تعلق اتنا گہرا اور گھریلو ا ور اس حدتک برجستہ و بے ساختہ ہے کہ بیانیہ کا ناگزیر حصّہ معلوم ہوتی ہیں جسے افسانوی ضرورت ہی خلق کر سکتی ہے۔ منٹو کا ایک افسانہ ہے ’’نعرہ‘‘ جس میں دو مہینے کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے کیشو لال کا سیٹھ اسے گالیاں دیتا ہے جسے اس کا دل و دماغ ہضم نہیں کرپاتا اور وہ گالیاں اس کے سینے میں مسلسل گھمڑتی رہتی ہیں۔ منٹو نے اس کیفیت کو دیکھئے تشبیہ کے ذریعے کس طرح بیان کیا ہے:
’’گالیاں... گالیاں...کہاں تھیں وہ دو گالیاں؟ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے باہر نکال لے اور جو کوئی بھی اس کے سامنے آئے اس کے سر پر دے مارے۔ ‘‘
اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر ان گالیوں کے پتھر کو نکالنے کی اپنی ایک Visual Quality  ہے جو کیشو لال کی ذہنی کیفیت کو، اس کے اندر کی چھٹ پٹاہٹ کو ،اس کی بے بسی اور لاچاری کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہے۔ افسانے میں کیشو لال کے لہولہان احساس اور منتشر ذہن کی عکاسی کےلئےمنٹو نے مختلف تشبیہات کا استعمال کیا ہے، جن کا گہرا تعلق افسانے کے بنیادی تھیم سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تشبیہات کا استعمال افسانوی فریم ورک میں نتیجہ خیز اور ثمر آور ثابت ہوتا ہے ۔ ایک اور تشبیہ ملاحظہ ہو:
’’اس نے دو گا لیوں کو سیٹھ کے تھوک بھرے منہ سے نکلتے دیکھا جیسے دو بڑے بڑے چوہے موریوں سے باہر نکلتے ہیں۔ ‘‘
غرضیکہ گالیاں تشبیہات میں ڈھلتے اور مجرد خیال ٹھوس تجربے میں بدلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔کیشو لال کے اندرون چلنے والے کروکشیتر کو خودکلامی کی تکنیک کے توسط سے پیش کیا گیاہے۔اس خود کلامی میں منٹو نے اشاروں کنایوں اور تشبیہات سے بھر پور مددلی ہے ۔ یہ کرداروں کے عمل کے حقیقی سرچشموں کی تھاہ کو پانے اور صداقت کو دریافت کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ ہتک میں ’’اونہہ‘‘ کہہ کر سیٹھ کے چلے جانے کے بعد اچانک ماجرائی سطح پر افسانے کی رفتار اور رِدھم دونوں بدل جاتی ہیں اور سوگندھی اپنی داخلی کیفیت اور ردعمل کو چولے بدل بدل کر بیان کرتی ہے، وہ دراصل اس ’’اونہہ‘‘ کے ’’ہینک اووَر‘‘ سے  مکت ہونے کی ایک ناتمام کوشش ہے ۔  اس موڑ پر تشبیہات منٹو کی فنی ضرورت کا اہم وسیلہ ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK