Inquilab Logo

اللہ سےتعلق کی مضبوطی کیلئےقرآن کریم سےگہری وابستگی اوراسکی ہدایات پرعمل ضروری ہے

Updated: August 05, 2022, 1:15 PM IST | Dr. Zafarul Islam Islahi | Mumbai

گزشتہ ہفتےشائع ہونےو الے مضمون ’’حقیقی کامیابی و اُخروی نجات کی ر اہ ہدایت وہی ہے جسے قرآن نے صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے‘‘ کا دوسرا حصہ

In the Holy Qur`an, good news has been given to those people who act patiently in the face of trouble and trouble .Picture:INN
قرآن مجید میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں اور حق پر قائم رہتے ہیں۔ تصویر:آئی این این

راہِ حق اور صراط مستقیم: رہا یہ مسئلہ کہ مختلف آیات میں مذکور اللہ کی ہدایت سے کیا مراد ہے جس کی پیروی میں حقیقی کامیابی کی ضمانت ہے اور جس کی خلاف ورزی دنیا وآخرت میں امن وسکون غارت کرنا، سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے؟ اس سوال پر غور وفکر سے پہلے یہ پیشِ نظر رہے کہ اللہ ربُّ العالمین ہے،سارے جہاں کا پرور دگار اور تمام انسانوں کا پالنہار ہے،وہ اپنے بندوں پر بے حد رحم و کرم فر ما نے والا ہے۔اللہ کی ربوبیت یا پروردگاری انسان کی مادی وروحانی تمام ضروریات کو محیط ہے۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی ہدایت سے با خبر نہ کرتا ،یعنی انہیں وہ راستہ نہ دکھاتا جس پر چل کر وہ اس کی خوشنودی اور دنیوی و اُخروی زندگی میں حقیقی کامیابی سے مشرف ہوسکتے۔ چنانچہ متعدد آیات میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ربِّ رحیم و کریم نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی اسے گزر بسر کے لئے دنیوی ساز و سامان عطا کیا اور اسے اپنی ہدایت سے باخبر کرنے کا بھی اہتمام فرمایاتاکہ وہ اسی کے مطابق شب وروز بسر کرے اور اپنے خالق ومالک کی رضا حاصل کرے۔
 (طہٰ۲۰:۵۰؛ الشعراء۲۶:۷۸؛ عبس۸۰:۲۰؛ الاعلیٰ: ۸۷؍۲-۳، البلد ۹۰:۱۰) قرآن مجید نے تو ایک مقام پر بہت ہی واضح انداز میں اس حقیقت سے انسان کو آگاہ کردیا ہے کہ اللہ نے انسان کو راہِ حق دکھا دی ہے،اب یہ اس کی پسند ہے کہ وہ اسے اختیار کر کے اپنے رب کا شاکر بندہ بنتا ہے، ا سے راضی کرتا ہے اور دونوں جہاں میں فوزو فلاح پاتا ہے یا اس کے برخلاف راہِ باطل پر چل کر ناشکرا بندہ بن جا تا ہے، اپنے رب کو ناراض کرتا ہے اور خود اپنی تباہی و بربادی کا ساز وسامان جمع کرتا ہے : ’’ بے شک ہم نے اسے [سیدھی] راہ دکھادی ہے، اب یا وہ شاکر بن جائے، یا ناشکرا بن جائے۔‘‘ (الدھر:۳) اللہ رب العزت نے ا سی راہ ِ ہدایت دکھانے کے لئے انبیا علیہم السلام کی بعثت ا ور اپنی کتابوں کے نزول کا سلسلہ جاری کیا ۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ بخوبی معروف ہے، اوّلین نبی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا اور آپ ؐ ہی کے توسط سے   اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات کا آخری مکمل مجموعہ قرآن کی صورت میں سارے انسانوں کو عطا فرمایا، تاکہ وہ اس کی روشنی میں راہِ ہدایت د یکھ لیں اور پالیں۔ بلاشبہ اللہ کی دی ہوئی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے۔ سچ پوچھئے تو پورا قرآن شریف شروع سے آخر تک ’ ھدی اللہ‘ کی تشریح و توضیح ہے اور بعض آیات میں مختصر و جامع ا نداز میں اس کی تعبیر یہ ملتی ہے کہ اللہ کو ربّ العالمین مان لینا اور صبح سے شام تک اس کی بندگی بجالانے میں مصروف رہنا ،یعنی زندگی کے ہر معاملے میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنا ہی راہِ ہدایت ہے ،یہی’’ صراطِ مستقیم ‘‘ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :  ’’ بے شک اللہ ہی میرا رب اور تم سب کا ر ب ہے، پس اسی کی عبادت کرو ،یہی صراط مستقیم ہے۔‘‘
(آل  عمران:۵۱)
 اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہدایتِ الٰہی نصیب ہونا صراط مستقیم پالینے سے عبا رت ہے،یعنی جس نے راہِ مستقیم اختیار کر لی وہ گویا اللہ کی ہدایت سے مشرف ہوگیا۔راہِ مستقیم کیسے نصیب ہوتی ہے یا اس پر چلنے کیلئے راہیں کیسے ہموار ہوتی ہیں ؟ اس کا جو اب اس آیت میں ملاحظہ فرمائیں: 
 ’’اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے اسے راہِ مستقیم دکھا دی گئی۔‘‘ (آل عمران :۱۰۱) 
 اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے مراد،جیسا کہ مفسرین نے واضح فرما یا ہے ، ایمان پر مضبوطی سے قائم رہنا ، اللہ سے تعلق مضبوط کرنا اور ہر معاملے میں اس کے احکام پر کاربند رہنا ہے۔ درحقیقت اسی طور پر شب وروز گزارنے والے راہِ راست پر ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے صلاح و فلاح کی بشارت ہے۔
 ( مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ج۲،ص۱۲۵)
 اسی کے ساتھ یہ نکتہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ اللہ سے تعلق کی مضبوطی کے لئے قرآن کریم سے گہری وابستگی اور اس کی ہدایات پر مضبوطی سے جمے رہنا ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی ا سی عظیم ترین کتابِ ہدایت سے منکشف ہوتا ہے۔ اپنے رسول محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
 ’’پس اس چیز (کتاب) کو مضبوطی سے تھامے رہو جو تمہاری طرف وحی کی گئی، یقیناً تم سیدھے راستہ پر ہو۔‘‘ 
(الزخرف :۴۳)   بلاشبہ یہ آیت ا س نکتہ کی وضاحت کیلئے کافی ہے کہ تمسک بالکتاب اور ہدایت ِ الٰہی نصیب ہونا لازم و ملزوم ہے۔ دوسرے، یہ امرِ بدیہی ہے کہ نبی کریم ﷺکے توسط سے تمام اہلِ ایمان کو اس نکتہ سے باخبر کرنا مقصود ہے۔
اہلِ حق کی خصوصیات
 اللہ کی ہدایت سے مشرف ہو جا نے والوں کی کیا خصوصیات ہیں یا ہدایت یافتہ ہونے کی کیا علامات ہیں ؟ اس باب میں سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات سے کلیدی رہنمائی ملتی ہے۔ ان میں قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہونے والوں، یعنی ا ہلِ تقویٰ (خوفِ ا لٰہی اور آخرت میں بازپُرس کے احساس سے اپنے کو گناہوں سے بچانے والوں اور اطاعتِ الٰہی کو اپنا شعار بنانے والوں )کے بنیادی اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: 
 ’’ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز کا اہتمام کرتے ہیں،ہمارے عطا کردہ مال میں سے انفاق کرتے ہیں، اور جو  ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تم پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئیں، اور جوآخرت میں یقین رکھتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی [اصلاً] فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۳-۵)
 تقریباً یہی مضمون سورۂ لقمان کی ابتدائی آیات(۲ ؍ تا۵؍) میں بھی مذکور ہے۔ یہاںیہ وضاحت اہمیت سے خالی نہ ہوگی کہ سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیات میں اہلِ تقویٰ کے اوصاف (ایمان میں پختگی کے ساتھ ان اعمال کی انجام دہی جو اللہ رب العزت کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں) بیان کرنے کے بعد یہ ارشادِالٰہی ہے:
 ’’ ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ ہدایت پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
 آیت کا یہ آخری حصہ اس لحاظ سے خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ ان میں مذکورہ بالا صفات سے متصف لوگوں کو اس سند سے نوازا گیا ہے کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ،یعنی اللہ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنے والے ہیں، اور اسی کے ساتھ انہیں یہ بشارت بھی سنائی گئی ہے کہ وہی صحیح معنوں میں فلاح یاب یا با مراد ہو ں گے، یعنی وہ جہنم سے محفوظ رہیں گے اور انہیں جنت میں داخلہ نصیب ہو گا ۔ ایک دوسری آیت میں اُن اہلِ ایمان کے بارے میں ، جو اپنے ایمان و یقین میں خالص ہیں اور اپنے ایمان کو سب سے بڑے گناہ (شرک) یا باطل عقائد سے گڈ مڈ نہیں کرتے، یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہی اصلاً ہدایت یاب ہیں اور انہیں امن و سکون کی نعمت نصیب ہوگی۔ ارشادِ ربّانی ہے:’’ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم[یعنی سب سے بڑے گناہ شرک ] سے مخلوط نہیں کیا ان کے لئے امن ہے اور وہی[ صحیح معنوں میں] راہِ ہدایت پر ہیں ۔‘‘ (الانعام :۸۲)
  مزید یہ کہ ایک دوسرے مقام پر ان اہل ِ ایمان کو ،جو مصیبت و پریشانی کی حالت میں صبر سے کام لیتے ہیں، دینِ حق پر جمے رہتے ہیں،اپنی زندگی اور ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انہیں اپنے رب کے پاس لوٹ جانا ہے،یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ انہیں ربِّ کریم کی عنایات نصیب ہوں گی اور وہ رحمت ِ الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ (البقرہ: ۱۵۶-۱۵۷) واقعہ یہ کہ اللہ ربُّ العزت کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہدایت یافتہ ( یا ایمان و عمل ِ صالح والے) لوگ سکون و اطمینان کے ساتھ رضائے الٰہی کا انعام لئے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں یا ہوں گے، جیسا کہ سورۃ الفجر کی یہ آیات شہا دت دے رہی ہیں:
 ’’ اے نفسِ مطمئنہ تو اپنے رب [کے جوارِ رحمت] کی طرف واپس لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس شامل ہوجا میرے[محبوب] بندوں میں اور داخل ہوجا میری [تیار کی ہوئی] جنت میں ۔‘‘ (الفجر:۲۷-۳۰)
  رہا یہ معاملہ کہ نفسِ مطمئنّہ کو یہ راحت بخش خطابِ الٰہی کس وقت ہوگا؟ اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ خطاب، قیامت میں حساب و کتاب کے بعد ہوگا، جب کہ بعض کی رائے میں یہ خطاب دنیا ہی میں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض قدیم مفسرین کا خیال[جو زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے] یہ ہے کہ ارواحِ مومنین کو یہ خطاب دونوں وقت( موت کے وقت اور قیامت میں بھی ) ہوگا۔ قدیم مفسرین میں ابن کثیر اسی رائے کے حامل ہیں (ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت ، دیو بند ، ۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء ج ۴،ص ۴۵۸ ۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں : معارف القرآن، ج ۸،ص۷۴۴-۷۴۵)
  اسی مسئلہ سے متعلق ایک حدیث کا حوالہ بھی برمحل معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے :   حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ربُّ العزت جنتیوں سے فرمائے گا:اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں،ہر طرح کی سعادت و خیر تیرے ہی ہاتھوں میں ہے۔اللہ پوچھے گا: کیا تم راضی ہو؟ وہ کہیں گے،اے ہمارے رب، ہم کیوں نہ راضی ہوں، تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو تو نے کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں۔  اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمہیں اس سے افضل چیز نہ عطا کروں؟تو وہ پوچھیں گے ان [جنت کی نعمتوں] سے افضل کون سی چیز ہے؟ اللہ فرمائے گا:میں تمھیں اپنی رضا مندی (رضوان) عنایت کرتا ہوں، اب میں اس کے بعد تم سے کبھی ناراض نہ ہوں گا۔ 
( صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار)
 اس سے معلوم ہوا کہ ا للہ کے بندوں میں جو راہِ ہدایت پر چلنے والے ( ایمان و عمل صالح والے ) ہیں،انہیں جنت میں سب سے بڑی نعمت یہ نصیب ہو گی کہ وہ یہاں ہمیشہ ہمیش کے لئے ’رضائے الٰہی‘ سے سرفرازکئے جا ئیں گے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK