سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں جنگ حنین کی شکست اور پھر ا س شکست کے فتح میں تبدیل ہونے سے متعلق بعض دیگر واقعات کے ساتھ آج کی قسط میں غزوۂ طائف کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
EPAPER
Updated: October 03, 2023, 4:46 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں جنگ حنین کی شکست اور پھر ا س شکست کے فتح میں تبدیل ہونے سے متعلق بعض دیگر واقعات کے ساتھ آج کی قسط میں غزوۂ طائف کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
مشرکین کو شکست:
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مسلمان پھر پلٹ کر میدان کار زار میں آگئے، گھمسان کی جنگ چھڑ گئی، دونوں طرف سے تیر برسنے لگے، تلواریں چمکنے لگیں، آسمان سے اللہ کی مدد اتری، مشرکین شکست کھاکر بھاگ گئے۔
حضرت قتادہؓ میدان جنگ کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حُنین گئے، جب جنگ چھڑی تو ابتدا میں ہمیں شکست ہوئی، میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان پر غالب آگیا ہے ،میں نے پیچھے سے اس پر وار کیا اور اس کی زرہ کاٹ دی، اب وہ میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے اس زور سے دبایا کہ مجھے موت کی آہٹ سنائی دینے لگی، اس کے بعد وہ مر گیا، اس طرح میں اس کے قبضے سے آزاد ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد مجھے حضرت عمرؓ نظر آگئے، میں نے ان سے پوچھا: یہ کیسے ہوگیا، مسلمانوں کو شکست کیسے ہوگئی؟ انہوں نے کہا اللہ کو یہی منظور تھا۔
اس کے بعد مسلمان دوبارہ پلٹ کر آئے، اور فتح حاصل کی۔ فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ جس شخص نے کسی مشرک کو قتل کیا، اس کا مال متروکہ اسی شخص کو دیا جائے گا جس نے اسے قتل کیا ہوگا، بشرطیکہ وہ اس کا ثبوت بھی فراہم کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان متعدد مرتبہ کیا، حضرت قتادہؓ کہتے ہیں کہ میں یہ اعلان سن کر کھڑا ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر میں نے قتل کیا تو میرے حق میں کون گواہی دے گا، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ابوقتادہ سچ کہتے ہیں، انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا تھا، اس کا چھوڑا ہوا مال میرے پاس ہے، اب آپؐ ان کو میرے حق میں راضی کردیں کہ وہ اپنا حق مجھ سے نہ لیں۔ اس پر حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فرمایا: نہیں، خدا کی قسم! نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کے لئے لڑتا ہے، اللہ کے رسولؐ کبھی نہ چاہیں گے کہ وہ اس کا حق تمہیں دے دیں، چنانچہ مقتول کا سامان ابوقتادہ کو دے دیا گیا، ابوقتادہ کہتے ہیں کہ میں نے اس مال سے قبیلۂ بنی سلمہ میں ایک باغ خریدا، اسلام لانے کے بعد یہ پہلا مال تھا جو میں نے ذخیرہ کیا تھا۔ (صحیح البخاری: ۵/۱۵۴، رقم الحدیث: ۴۳۲۱)
اس جنگ کے دوران ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ قبیلۂ ہوازن کا ایک بھاری جسامت والا شخص سرخ اونٹ پر سوار تھا، اس کے ہاتھ میں کالا جھنڈا تھا، اگر وہ اپنے دشمن پر قابو پالیتا تو وہ جھنڈا اس کے بدن میں بھونک دیتا، ورنہ اپنے پیچھے والوں کے لئے اسے اٹھائے رکھتا، حضرت علیؓ اور ایک انصاری صحابیؓ اس کے پیچھے لگ گئے، حضرت علیؓ نے اس کے اونٹ کے کونچ پر وار کیا، جس سے اونٹ گر گیا، وہ موٹا آدمی بھی زمین پر گر گیا، انصاری صحابی نے اس کی پنڈلی پر ضرب لگائی، جس سے وہ دو ٹکڑے ہوگئی۔ (مسند احمدبن حنبل: ۲۳/۲۷۳، رقم الحدیث: ۱۵۰۲۷) اس دن بانوے مشرک مارے گئے، تنہا ابوطلحہؓ نے بیس کافروں کو مارا، ان سب کا مال و اسباب ابوطلحہؓ کو ملا۔(سنن ابوداؤ: ۳/۷۱، رقم الحدیث: ۷۲۱۸، الدارمی: ۳/۱۶۱۴، رقم الحدیث: ۲۵۲۷)
حضرت انس کی والدہ حضرت ام سُلیم ایک خنجر لئے ہوئے تھیں، کسی نے حضورؐ سے کہا کہ ام سُلیم کے پاس ایک خنجر ہے، آپؐ نے ان سے پوچھا تم خنجر کا کیا کروگی، عرض کیا: اگر کوئی کافر میرے قریب آیا تو میں اس پر حملہ کردوں گی۔ آپؐ نے یہ سن کر تبسم فرمایا ۔ انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا ہم ان لوگوں کو قتل نہ کردیں جو حال ہی میں مسلمان ہوئے ہیں، عین حملے کے وقت انہوں نے آپؐ کو تنہا چھوڑ دیا، کیا وہ لوگ منافق نہیں ہیں، کیا انہیں قتل نہ کردینا چاہئے؟ آپؐ نے فرمایا: ام سلیم! اللہ ہمارے لئے کافی ہوا، اس نے ہم پر احسان کیا ہے۔ (صحیح مسلم: ۳/۱۴۴۲، رقم الحدیث: ۱۸۰۹)
جس وقت مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ان کا پیچھا کررہے تھے، افراتفری کا عالم تھا، مشرکین خوف زدہ تھے اور بدحواسی کا شکار تھے۔ حضرت ابو السائبؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے یزید بن عامر السُّوَائی نے جو اس دن مشرکین کی طرف سے لڑ رہے تھے اور بعد میں مسلمان ہوگئے تھے، بتلایا کہ اس روز پوری قوم بے حد دہشت زدہ تھی، میں نے ان سے خوف ودہشت کی کیفیت پوچھی، انہوں نے ایک کنکری اٹھائی، اور اسے زور سے طشت میں پھینکا، اس سے ٹن یا ٹک کی آواز نکلی، یزید بن عامر نے کہا بس ہمارے دل خوف کی وجہ سے اسی طرح دھڑک رہے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۲/۲۳۷)
علامہ واقدی نے اپنی کتاب المغازی میں لکھا ہے کہ معرکۂ حنین میں مشرکین کو زبردست جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، عین جنگ میں ان کے بانوے افراد مارے گئے، بھاگتے ہوئے جو لوگ قتل ہوئے ان کی تعداد شمار کرنا مشکل ہے، صرف بنی مالک کے تین سو آدمی قتل کئے گئے، بنی نصر، بنی رئاب کے بھی سیکڑوں قتل کئے گئے، حضرت سعید بن المسیبؓ کی روایت کے مطابق قیدیوں کی تعداد چھ ہزار تھی، مکہ مکرمہ میں جو مکانات لکڑی سے بنے ہوئے تھے وہ سب قیدیوں سے بھر گئے تھے، اموال غنیمت میں چار ہزار اوقیہ چاندی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں، گھوڑے، گدھے اور گائیں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تمام اموال غنیمت جعرانہ میں جمع کئے گئے تاکہ طائف سے واپس آکر مال غنیمت کے طور پر ان کی تقسیم عمل میں آئے۔ (کتاب المغازی: ۳/۹۱۳، طبقات ابن سعد: ۲/۱۵۲)
غزوۂ طائف
حُنین میں شکست کھا نے کے بعد قبیلۂ ہوازن اور ثقیف کے لوگ طائف کی طرف بھاگ گئے تھے اور وہاں جاکر ایک قلعے میں محصور ہوگئے تھے۔ ہوازن کا سردار مالک بن عوف نصری بھی ان کے ساتھ تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ ان بھگوڑوں کا پیچھا کریں، آپؐ خود بھی حنین سے طائف کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سے پہلے آپؐ نے یہ حکم دیا تھا کہ غزوۂ حنین میں جو مال واسباب بہ طور غنیمت حاصل ہوا ہے اور جو لوگ قیدی بنائے گئے ہیں ان سب کو جعرانہ میں بہ حفاظت رکھا جائے۔ طائف سے واپسی پر ان کی تقسیم عمل میں آئے گی۔ دوسرا حکم حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ کےلئے تھا کہ وہ ذوالکفین نامی بت کو گرا کر آئیں۔ یہ بُت لکڑی کا بنا ہوا تھا اور قبیلۂ دوس میں کسی بلند مقام پر نصب تھا۔ اصلاً یہ بت عمرو بن حمحمۃ کی ملکیت تھا۔ آپؐ نے حضرت طفیل دوسی سے فرمایا کہ تم اپنے قبیلے میں جاؤ اور اس بت کو تباہ کرنے میں اپنے لوگوں کی مدد لو، اور جلد از جلد طائف پہنچ کر ہم سے ملو۔
حضرت طفیل حکم کی تعمیل میں فوراً ہی روانہ ہوگئے، دوس پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس بت کو آگ لگا دی، اس وقت حضرت طفیلؓ یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
یَا ذَا الْکَفِّیْنِ لَسْتُ مِنْ عِبَادِکَ
مِیْلَادنَا اَکْبَرُ مِنْ مِیْلاَدِک
إِنِّیْ حَثَوْتُ النَّارَ فِیْ فُوَادِکَ
’’اے ذوالکفین! میں تیرہ بندہ نہیں ہوں، ہماری پیدائش تیری پیدائش سے بڑھ کر ہے، میں نے تیرے دل میں آگ لگاد ی ہے۔‘‘
ذوالکفین کا کام تمام کرکے ایک مِنْجِنیق (توپ) اور ایک دبّابَہ (ٹینک) لے کر اپنے چار سو ساتھیوں کے ساتھ حضرت طفیلؓ طائف پہنچ گئے اور آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے، اس کاروائی میں صرف چار دن لگے۔ (الروض الانف: ۱/۲۳۵، امتاع الاسماع: ۱/۳۹۵)
طائف پہنچنے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اور قیام نخلہ یمانیہ میں ہوا، پھر قرن میں ٹھہرے، پھر ملیح ہوتے ہوئے بحرۃ الغار میں آکر ٹھہرے۔ یہاں آپؐ نے ایک مسجد بنوائی۔ اس علاقے میں ایک مقام لیہ کہلاتا تھا، اس جگہ مالک بن عوف کا قلعہ تھا، آپؐ نے حکم دیا کہ اس قلعے کو منہدم کردیا جائے۔ یہاں سے آپؐ نے طائف کی طرف رخ فرمایا، طائف میں آپؐ نے قلعہ کے قریب قیام فرمایا۔
مالک بن عوف نصری اپنے شکست خوردہ ساتھیوں کے ساتھ طائف کے قلعے میں داخل ہوچکا تھا۔ اس نے کئی سال کا غلہ اور خورد ونوش کا دوسرا سامان قلعے میں ذخیرہ کرلیا تھا، قلعے کے آہنی دروازے بند تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو مقدمۃ الجیش پر مقرر فرمایا، مسلمانوں کو قلعے کے قریب دیکھ کر دشمن نے تیر برسانے شروع کردیئے، بنو ثقیف تیر اندازی میں بڑے ماہر تھے، دشمن کی تیر اندازی سے بارہ صحابہؓ شہید اور بہت سے زخمی ہوگئے، یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر قلعے سے کچھ دور وہاں چلے گئے جہاں اس وقت مسجد ِ طائف بنی ہوئی ہے، یہ مسجد ٹھیک اس جگہ بنی ہوئی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ اور دوسری زوجۂ محترمہ ام المؤمنین حضرت زینبؓ اپنے اپنے خیموں میں قیام پذیم تھیں، ان دونوں خیموں کے درمیان جو جگہ تھی آپ اسی میں نماز باجماعت ادا فرماتے تھے، بعد میں جب بنو ثقیف مسلمان ہوئے تو عمرو بن امیہ ثقفیؓ نے اس جگہ مسجد بنادی۔
مسلمانوں کی کاروائی
بنو ہوازن اور بنو ثقیف کو یہ گمان تھا کہ ہم قلعے میں بند ہیں، اس کی اونچی فصیلوں پر ہمارے جنگجو مقرر ہیں جو تیر اندازی کرکے مسلمانوں کو قلعے کے قریب نہیں آنے دے رہے ہیں۔ ان کے پاس کئی سال کا غلہ موجود ہے، مسلمان کب تک یہاں ٹھہریں گے، آخر پریشان ہوکر خود ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔ بظاہر وہ اس وقت اپنے گمان میں صحیح تھے، حضرت خالد بن ولیدؓ نے انہیں للکارا بھی کہ آؤ اور قلعے سے نکل کر آمنے سامنے کی لڑائی لڑو، مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں اترنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے پاس کھانے پینے کا سامان موجود ہے، جب یہ ختم ہو جائیگا تب قلعے سے نکل کر دُوبہ دُو جنگ کریں گے۔
مسلمانوں نے اولاً منجنیق (توپ) میں رکھ کر قلعے کی طرف پتھر پھینکے، اس حملے کو دشمن نے اپنی تیر اندازی سے ناکام کردیا، بلکہ تیر لگنے کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا، اس کے بعد کچھ صحابہؓ دبابہ (ٹینک) میں بیٹھ کر قلعے کی دیوار تک پہنچے اور اس میں نقب لگانے کی کوشش کرنے لگے، یہ دیکھ کر دشمنوں نے اوپر سے آگ کی سلاخیں پھینکنی شروع کردیں، مسلمانوں کی یہ تدبیر بھی ناکام ہوگئی۔
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ انگوروں کے باغات کاٹ کر انہیں ویران کردیں، دشمنوں نے مسلمانوں کو اپنے باغات کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو بلبلا اٹھے اور قرابت داری کا واسطہ دے کر کہنے لگے کہ آپ لوگ ایسا نہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کی رضا کے لئے اور قرابت داری کے خیال سے اپنا فیصلہ واپس لیتا ہوں، آپ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ طائف کے تمام بت خانوں کو گرا دیں اور ان میں رکھے ہوئے بتوں کو توڑ دیں، انہوں نے حکم کی تعمیل کی، بت خانوں کو گرا کر حضرت علیؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپؐ نے بے حد مسرت کا اظہار فرمایا اور بہت دیر تک تنہائی میں ان سے گفتگو فرمائی، صحابہؓ کو اس سے بڑا تعجب بھی ہوا۔