Inquilab Logo

دسویں تراویح میں منافقین کی سازش،مسجد ضراراور حضرت یونس ؑاور مچھلی کا واقعہ سنا جائیگا: قسط نمبر(۱۰)

Updated: April 01, 2023, 10:30 AM IST | Maulana Nadeem-ul-Wajidi | Mumbai

روحِ قرآں۔پارہ:(۱۱)گزشتہ آیات میں اُن منافقین کا ذکر تھا جنہوں نے تبوک سے غیر حاضر رہنے کے لئے حیلہ جوئی کی تھی

A few Companions made excuses for not joining the Tabuk campaign, but when they realized their mistake, they themselves was tied to the pillars of the Prophet`s Mosque and remained tied until his repentance was accepted.
غزوۂ تبوک میں چند صحابہ ؓ نے شامل نہ ہونے کے لئے بہانے بنائے لیکن جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو خود کو مسجد ِ نبوی ؐ کے ستونوں سے باندھ لیا تھا اور اس وقت تک بندھے رہے جب تک ان کی توبہ قبول نہیں کرلی گئی۔

گزشتہ آیات میں اُن منافقین کا ذکر تھا جنہوں نے تبوک سے غیر حاضر رہنے کے لئے حیلہ جوئی کی تھی، اس پارے(يَعْتَذِرُونَ )کے آغاز میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے تبوک سے واپسی کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر جھوٹے حیلے بہانے رکھے۔ یہ تیس سے زیادہ افراد تھے جو جہاد سے غیر حاضر ہوئے۔ ان کے متعلق پہلے ہی بتلا دیا گیا تھا کہ یہ لوگ آئیں گے اور عذر بیان کریں گے۔ فرمایا: جب آپ ان کے پاس واپس پہنچیں گے تو یہ سب آپ کے سامنے طرح طرح کے عذر پیش کریں گے مگر آپ فرمادیجئے گا کہ بہانے مت بناؤ، ہم تمہاری بات کا یقین نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے سب احوال بتلا دیئے ہیں، اب اللہ اور اس کے رسول تمہارے عمل کو دیکھیں گے۔ اگلی آیتوں میں  منافقین کا ذکر ہے خاص طور پر ان منافقین کا جو دیہی علاقوں میں رہتے تھے، ان کے متعلق فرمایاکہ وہ کفر ونفاق میں کچھ زیادہ ہی سخت ہیں، پھر اہل ایمان کا ذکر ہے خاص طور پر اُن اہل ایمان مہاجرین وانصار کا جنہوں نے ایمان لانے میں سبقت کی، ان کے لئے جنت کی خوش خبری ہے۔ ان آیات میں ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جنہوں نےکھلے دل سے اپنی اس کوتاہی کا اعتراف کرلیا تھا کہ وہ تبوک نہیں گئے اور اس غلطی کی تلافی میں انہوں نے مالی صدقات پیش کئے تھے۔ اس سلسلے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لے لیجئے تاکہ آپ اس مال کی وجہ سے ان کو پاک وصاف کرسکیں اور آپ ان کے لئے رحمت کی دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعائے رحمت ان کے لئے باعث تسکین ہے۔ بعد والی آیات میں مسجد ضرار کا تذکرہ ہے، یہ مسجد منافقین نے تعمیر کی تھی اور اس کیلئے اگرچہ ان لوگوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت بھی حاصل کرلی تھی، مگر ان کا اصل مقصد نماز پڑھنا نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ تمام مسلمانوں سے علاحدہ رہ کر اس طرح جتھہ بندی کی جاسکے کہ اس پر مذہب کا پردہ پڑا رہے اور اندر ہی اندر مسلمانوں کے خلاف سازشیں بھی ہوتی رہیں۔ تبوک سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس مسجد کے بانیوں کے عزائم سے باخبر کردیا گیا، آپ نے چند صحابہؓ  کو اسی وقت روانہ کیا اور حکم دیا کہ اس مسجد کو گرا دیا جائے ۔ قرآن کریم نے اس مکان کو ’’مسجد ضرار‘‘ کہا ہے، فرمایا: کچھ دوسرے لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد اس لئے بنائی ہے کہ نقصان پہنچائیں، کفر کی باتیں کریں اور اہل ایمان میں تفریق پیدا کریں اور اس شخص کے لئے گھات لگانے کی جگہ بنائیں (مراد مشہور منافق عبداللہ ابن ابی ہے) جو اس سے پہلے اور اس کے بعد رسول اللہ کے خلاف برسر پیکار ہوچکا ہے، وہ ضرور قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہماری نیت تو بھلائی کے سوا کچھ نہیں تھی اور اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ منافقین کی اس سازش کے بیان کے بعد  اہل ایمان کا ذکر ہے کہ در حقیقت اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔ اللہ کے ذمہ یہ ایک پکا وعدہ ہے تورات انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر  اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے، تم خوش خبری حاصل کرو اس سودے پر جو تم نے اللہ سے کیا ہے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت بیعت عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، منیٰ میں واقع اس پہاڑی کے قریب ہجرت سے پہلے انصار مدینہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست رحمت پر بیعت کی تھی اور جان ومال کی قربانی دینے کا وعدہ کیا تھا، اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 
اب پھر غزوۂ تبوک کا بیان ہے کہ اللہ نے مہربانی فرمائی نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر جنہوں نے بڑے سخت وقت میں رسولؐ اللہ کا ساتھ دیا، غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے منافقین کا ذکر تفصیل سے آگیا۔ کچھ مسلمانوں کا بھی ذکر آیا اور یہاں بھی ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو کسی غلط نیت سے نہیں بلکہ محض سستی اور کاہلی کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے، لیکن بعد میں نادم بھی ہوئے۔ یہ دس حضرات تھے ان میں سے سات نے خود کو مسجد نبویؐ کے ستونوں سے باندھ کر سزا دی اور اس وقت تک بندھے رہے جب تک ان کی توبہ قبول نہیں کرلی گئی، تین نے خود کو ستونوں سے نہیں باندھا،  ان کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا اور ان کے مقاطعے کا حکم ہوا جس کی وجہ سے ان کی حالت قابل رحم ہوگئی بالآخر ان کی توبہ بھی قبول ہوگئی اور ان کا مقاطعہ ختم کردیا گیا۔ 
آج کی تراویح میں سورۂ یونس بھی شروع ہوئی ہے، اس سورہ کا بنیادی موضوع دین کے مبادیات ہیں۔ سلسلۂ کلام کا آغاز منکرین وحی سے کیا گیا ہے کہ لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ ایک شخص نے پیغام نبوت پیش کیا ہے اور وہ اسے جادو گر کہہ رہے ہیں، حالاں کہ اس پیغام میں حیران کرنے والی بات کون سی ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے سامنے دو باتیں رکھی ہیں، ایک یہ کہ زمین وآسمان سب اللہ نے پیدا کئے ہیں اور ہر جگہ اسی کا حکم چلتا ہے،  دوسرے یہ کہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا ہے تاکہ اچھے برے اعمال کا بدلہ دیا جاسکے۔ 
آگے ان دو حقیقتوں کی تفصیل ہے، اہل ایمان کا ذکر ہے، اہل کفر وشرک کا تذکر ہ ہے کہ ان کو درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ اس پر بعض مشرکین نضر بن الحارث وغیرہ نے یہ مطالبہ کیا کہ اے اللہ اگریہ بات سچی ہے تو آپ ہم پر آسمان سے پتھر برسائیں یا ہمیں کسی دوسرے درد ناک عذاب میں مبتلا کردیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر اللہ لوگوں کے ساتھ بُرا برتاؤ کرنے (عذاب دینے) میں اتنی ہی جلدی کرتا جتنی جلدی یہ لوگ دنیا کی بھلائی مانگنے میں کرتے ہیں تو ان کی مدت ختم بھی ہوچکی ہوتی، ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں۔ لوگوں کی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہمیں پکارنے لگتا ہے اور جب ہم اس کی یہ تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ ایسا ہوجاتا ہے گویا برے وقت میں اس نے ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔ کچھ آیات کے بعد انسان کی اس فطرت پر اس طرح بھی روشنی ڈالی کہ جب ہم، لوگوں کو مصیبت کے بعد اپنی راحت کا ذائقہ چکھا دیتے ہیں تووہ ہماری نشانیوں کے بارے میں مکروفریب کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنے کچھ انعامات کا تذکرہ فرمایا اور یہ حقیقت واضح فرمائی کہ دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی وہ پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں خوب گھنی ہوگئی، پھر عین اس وقت جب زمین اپنی بہار پر تھی اورکھیتیاں سجی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان پر قادر وقابض ہوجائیں گے، یکایک رات میں یا دن میں ہمارا حکم آپہنچا اور ہم نے ان کو ایسا تباہ کیا گویا وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ رکوع نمبر بارہ تک توحید، معاد وغیرہ ہی کا ذکر ہے،  اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کی ان گنت نشانیوں کا اور بے شمار نعمتوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔ 
یہاں حضرت نوح ؑ کا قصہ مذکور ہے، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا بھی ذکر ہے۔ یہ قصہ ذرا تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
 گزشہ پاروں میں بھی اس سلسلے کے کچھ واقعات آچکے ہیں، یہاں یہ بیان کیا گیا کہ جب ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار لگا دیا تو فرعون اور اس کا لشکر ظلم و زیادتی کے ارادے سے بنی اسرائیل کے پیچھے پیچھے چلا یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ معبود حقیقی وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں ماننے والوں میں سے ہوں، (فرمایا) اب ایمان لاتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا، اب تو ہم تیرے بدن ہی کو بچائیں گے تاکہ بعد والوں کے لئے نشان عبرت بنے،( قرآن کریم کا یہ بیان کتنا مبنی بر حقیقت ہے اس کا اندازہ فرعون کی اس ممی سے ہوتا ہے جو آج بھی مصر کے عجائب گھر میں صحیح وسالم رکھی ہوئی ہے)۔ اس کے بعد ان احسانات کا ذکر ہے، جو بنی اسرائیل پر مسلسل کئے گئے ،اس سورہ میں حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا بھی ذکر ہے ،یہ لوگ عذاب کے کچھ آثار دیکھ کر ایمان لے آئے تھے، ان کا ایمان معتبر قرار دیا گیا۔ حضرت یونسؑ کے اس واقعے کا بھی ذکر ہے کہ وہ اپنی تکذیب وتردید کے خوف سے وطن واپس نہیں گئے، بلکہ دوسری جگہ ہجرت کے ارادے سے ایک کشتی میں سوار ہوئے، کشتی دریا کے بیچ میں پہنچی تو اچانک رک گئی، کشتی کے مالک نے اعلان کیا کہ کوئی مفرور غلام اس کشتی پر سوار ہے، اسی لئے یہ آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ چوں کہ یہ اجنبی تھے انہیں غلام سمجھا گیا اور دریا میں ڈال دیا گیا، جہاں وہ ایک مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔ روایات کے مطابق حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے، اسی دوران آپ کی زبان پر آیت کریمہ لاالہ إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظالمین جاری ہوئی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مچھلی کے پیٹ کی مصیبت سے نجات عطا فرمائی۔ 
سورہ یونس اس آیت پر ختم ہوتی ہے کہ آپ فرما دیجئے کہ اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے، جو سیدھی راہ اپنائے گا وہ اپنے لئے اپنائے گا اور جو گم راہ ہوگا وہ اپنا ہی نقصان کریگا، میں تم پر کوئی وکیل نہیں ہوں۔ آپ پر جو وحی نازل کی جارہی ہے آپ اس کی اتباع کرتے رہئے اور جب تک اللہ فیصلہ نہ فرمادیں صبر کرتے رہئے اور اللہ بہترین فیصلہ کرنے والوں میں سے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK