ہمارا تصور ِاخلاق گاڈ گیوَن ہے، ہمارے اصولِ اخلاق میں نہ اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ وہ کم ہو سکتے ہیں۔ یہ خصوصیت کسی بھی روایت کا حصہ نہیں رہی، ہماری یہ بڑی محرومی ہو گی اگر ہم اخلاق بھی دوسروں سے اخذ کریں۔
مذہب اسلام نے اپنے پیروکاروں کیلئے اچھے اخلاق کو لازم کیا ہےکہ اعلیٰ اخلاق ہی سے دل جیتے جاسکتے ہیں اور خلق خدا تک پیغام حق پہنچایا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔‘‘ (سورہ القلم:۴) اللہ کے اخلاق اختیار کرو۔ اسلام کے تصور اخلاق اور عصر حاضر کے اخلاقی ماڈل اور امتیاز و اثرات کے سمجھنے کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو پروفیسر قرار حسین صاحب فرماتے ہیں’’ غیر شعوری طور پر غالب تہذیب کے اثرات مغلوب تہذیب پر لازما ًپڑتے ہیں۔‘‘ چونکہ مختلف تہذیبوں کے فاصلے کم ہوتے جا رہے ہیں، طرح طرح کے نظریات کا سامنا ہے، جن کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے مرعوب ذہن کی معاشرت ان کے اثرات کو جذب کرنے لگتی ہے اور یہ خدشہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرت چوہوں کی طرح نہ ہو جائے جو کسی کی بھی بوری دیکھ کر اس سے گندم چرا لیتے ہیں۔ ہماری یہ بڑی محرومی ہو گی اگر ہم اخلاق بھی دوسروں سے اخذ کریں۔ حالانکہ فلسفۂ اخلاق کی تاریخ میں دنیا کی سب سے بڑی سائنس آف ایتھکس کے ہم وارث ہیں، ہمارا تصور ِاخلاق گاڈ گیوَن ہے، ہمارے اصولِ اخلاق میں نہ اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ وہ کم ہو سکتے ہیں۔ یہ خصوصیت کسی بھی روایت کا حصہ نہیں رہی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد اخلاق کی تکمیل تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں کامل ہو کر جمع ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔‘‘
عصر حاضر کے اخلاقی ماڈل کے امتیازات سے غیر متعلق رہ کر ہم اپنا اخلاقی بیانیہ علمی سطح پر تشکیل نہیں دے سکتے اس لئے کہ موجودہ سیاق و سباق میں ہر علم کی ضرورت ہے، عصر حاضر کے اخلاقی سیاق و سباق کو رد و قبول کرنا ہمارے بیانیے میں دکھائی دینا چاہئے، اس کے بغیر ہمارے نظریات، عقائد اور فلسفہ ٔ اخلاق میں مطابقت پیدا نہیں ہوگی، وہ اجنبی سی باتیں رہ جائینگی اور ان میں تاثیر نہیں پیدا ہو گی۔ یہ دونوں چیزیں علم کی بنیادی ترین ضرورت ہے۔ اسی طرح تصور علم کے ساتھ اخلاق ( عملی) ایک ایسا پودا ہے جس کا بیج بونا بھی ضروری ہے۔ نبی اکرم ﷺنے اسلام کے اخلاقی تصور کو عملاً برت کر بتایا یعنی اخلاق کا نمونہ پیش کیا۔ سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ’’ اللہ کے نبی ؐ کا اخلاق کیسا تھا؟‘‘ آپؓ نے فرمایا ،’’کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے۔‘‘
ایک اور پہلو سے بھی اس موضوع کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اگر ہم انسانی تاریخ کو سامنے رکھیں تو انسان کی ثابت قدمی کی دو بڑی بنیادیں ذہن اور اخلاق کی نشوونما رہی ہیں، اگر دونوں میں سے کوئی ایک پہلو بھی چھوٹ جائے تو تاریخ ہمیں مٹا کر دوسری قوم کو لے آتی ہے۔ اخلاق میں آ جانے والی کمزوری ،زوال کے تمام اسباب کو طاقتور بنا دیتی ہے۔ تاریخ میں ایتھنز کے اسپارٹا پر غالب آنے کی وجہ ؛ان کا علم اور خیر کو ملا کر ایک تہذیبی علمی اور ذہنی ماڈل بنانے میں کامیابی حاصل کرنا رہا ہے، جس نے بالآخر فتح ان کو دلائی جس کا بنیادی سبب اخلاقی برتری تھا ۔
اخلاقی ماڈل کے امتیازات کو سمجھنے کے لئے ہم چار نکات کے تحت گفتگو کریں گے :
(۱) فطری اخلاق
(۲) وہ اخلاق جو تصور انسان سے جنم لیتے ہیں
(۳) عصر حاضر کا تصور قوت اور اخلاق ، اور
(۴) عصر حاضر کی آرگنائزیشنل ایتھکس اور اسلام کا تصور اخلاق۔
فطری اخلاق
فطری اخلاق جس پر آدمی کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے آدمی کو خلیفہ بنایا ہے۔ آدمیت کے بغیر انسان اس منصب پر خود کو کیسے فائز کر سکتا ہے؟ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ اپنے مادہ تخلیق کے احسن ہونے کو بحال رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ نبی اکرم ؐنے فرمایا’’ جو جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام لا کر بھی اچھے ہوتے ہیں۔‘‘ نبی اکرم ؐ نے باوجود ان کے عقائد میں شرک کے، فطری انسان کی تصدیق جاہلیت میں اچھے کہہ کر فرمائی ہے ۔ اسلام کے نزدیک آدمیت یا فطری اخلاق نام ہے سیلف لیسنس کا، آدمیت سیکریفائز ہے ،آدمیت موڈیسٹی ہے۔ آدمیت یا فطری اخلاق کو مذہب ایک چینل فراہم کرتا ہے، اخلاق کی پیدائش کا مادہ فطرت ہے لیکن اس گیلی مٹی پر کمہار کام کرتا ہے وہ دین و شریعت اور وحی الٰہی ہے۔ فطرت گیلی مٹی کی طرح ہے۔ نبی اکرم ؐ نے گیلی مٹی کو آب کوثر میں ڈالے جانے والا کوزہ بنا دیا۔ عہد رسالت میں کفار و مشرکین ایمان لائے تو وہ پاتال سے کلمہ پڑھتے ہی عرش پر پہنچ گئے یعنی انہیں کسی تدریج سے نہیں گزرنا پڑا کیونکہ وہ آدمی ہو جانے کو کوالیفائی کیے ہوئے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت النبیؐ میں لکھا ہے کہ’’ بعض نقائص کے باوجود عربوں کا فیاض ہونا ،بہادر ہونا، مہمان نواز ہونا، مظلوموں کے لئے کھڑا ہونا، حلف الفضول، مسافروں کو پناہ دینا، خانہ کعبہ پر کوئی ٹیکس نہ لگانا، زیارت کرنے والوں کو کھانا کھلانا ان مشرکین کے ذمے تھا، یہ سب بنیادی انسانی اوصاف تھے ۔ اصول غلط ہو یا صحیح اس پر استقامت کے ساتھ کھڑے رہتے تھے، کوئی سمجھوتہ اپنی جان کی قیمت دے کر بھی نہیں کرتے تھے۔‘‘ یہ فطری اخلاق تھے جس کی تصدیق نبی اکرم ﷺ نے کی ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگ آدمی بنے بغیر مفسر قرآن، مقرر اور عالم دین بننا چاہتے ہیں۔ باتیں سب صحیح ہوتی ہیں لیکن کہنے والا چونکہ اخلاق کی بلندی پر نہیں ہے، اسلئے اپنی تاثیر کھو دیتی ہیں۔ اسی طرح مذہب کے فقہی و قانونی تصور نے فطری اخلاق کو مرجھا دیا ہے۔ گھر میں بہو ، بیمار ساس اور سسر کی خدمت سے انکار، فقہی فتوؤں کا سہارا لے کر اپنی آدمیت کو قتل کر دیتی ہے۔ اگر کسی کی دنیا کی تکلیف ہمیں متاثر نہیں کرتی تو ہم آدمی بننے میں ناکام ہیں۔ کوئی جانور یا بلی گاڑی کے نیچے آگئی اور ہمارا کچھ وقت پریشانی میں نہیں گزرا تو ہم آدمی ہونے کے امیدوار تو ہوسکتے ہیں مگر آدمی نہیںہوسکتے۔ جس مادۂ تخلیق کو احسن بنانا تھا اسے گراوٹ کی طرف ہم لے جا رہے ہیں اور عصر حاضر میں مادۂ تخلیق کو جانوروں کے مشابہ یا محض جبلی وجود قرار دیا گیا۔ اس پر مزید اے آئی نے ایک ڈی ہیومینائزیشن عقلی جس میں آدمی کی غور و فکر کی صلاحیت سلب ہوتی جا رہی ہے، تو ڈیٹا کی بہتات نے انسان کو ایک طرح کی شرمندگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ دوسرا اے آئی کے ذریعے ڈی ہیومنائزیشن اخلاقی ہے، جس میں ڈیپ فیک کے ذریعے ورچوئل دنیا میں بے حیائی کے بے شمار راستے کھول کر آدمی کے اندر موجود حیا کو مسخ کیا جا رہا ہے اور خودغرضی نے ایسا آدمی تشکیل دیا ہے جو دوسروں کی ترقی اور خوشحالی کو دیکھ کر کم خوش ہوتا ہے اور آئینہ دیکھ کر زیادہ خوش ہوتا ہے، تو وہیں فیمینزم نے عورت کی نسائیت اور عورت پن کو اس سے چھین لیا ہے ۔اس کے اثرات مسلم معاشرے میں سرایت کرتے جا رہے ہیں۔
اب پرانے تصور آدمی کو رد کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی تسکین کی نعمت سے انسان محروم ہوتا جا رہا ہے۔ آدمیت اگر نظر انداز ہو جائے تو دین کا اعتبار باقی نہیں رہتا، وہ تو محض رٹا ہوا دین ہوتا ہے۔ اس وقت دین کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ آدمی بنو ۔ اسی طرح ہم انہی کے بیانیے میں رہتے ہوئے یہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ری ہیومن بنانے آئے ہیں ۔ آئیے اس کا سنگ بنیاد فیثا غورث کے اس فقرے ’’بی ہولڈدی مین‘‘ پر رکھ کر انسانیت کی بحالی کی دعوت دیں اور اس کا آغاز کریں ۔ یہ ایک لالچی یا دنیا دار آدمی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اس کا بچہ آدمی نہیں رہ جائے گا۔ یہ چیز اسے گھبرا دینے والی ہے ۔یہ اس احساس کو جو دور جدید میں ڈی ہیومنائزیشن کی آگ، جس کی رفتار بہت تیز ہے، اس سے ہم لوگوں کو بچا نے کی پہل کر سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا علاج یہ ہے کہ ہم نے اپنے اندر آدمیت کے اگر ۱۰۰؍ پیالے رکھے ہیں، تو میری ذمہ داری ہے کہ دیکھوں کہ وہ کس پانی سے بھرے ہیں؛ بازاری پانی نے، جوہڑ کے پانی نے، کہیں گندے پانی نے پیالے کو ناقابل استعمال تو نہیں بنا دیا ہے؟ یہ وہ مرحلہ ہے جب ہم انسانی ذمہ داریوں پر لپکنے والی غیرت حاصل کرینگے، غلط پانی بھرنے پر شرم آنے لگے گی اور اسی سے وہ Urge پیدا ہوگی جو اعلیٰ ذہانت کے ساتھ ایک بہت ہی مذہبی اور نصب العینی فیصلے کے ساتھ کہ اب مَیں پانی کنویں سے نکالوں گا، اپنی شخصیت کی تعمیر کیلئے پانی زمزم کا لوں گا، روحانی شخصیت کا پانی الگ جگہ سے لوں گا، وہ پیاس پکارنے لگے گی وہ پانی لاؤ یعنی ان کی پیاس بجھانے کیلئے ان کی آواز پر درکار پانی انہیں فراہم کیجئے۔ یہ دو نسخے آدمیت کو بحال کرنے کی ابتدا ءکیلئے ضروری ہیں جو اخلاق ِ انسانی کی تعمیر کا فاؤنڈیشن ہے۔ آدمیت کی بحالی کیلئے مذہب کے دیئے گئے اخلاقی اصول ایسے ہی آدمی پر جلد اثر انداز اور کارگر ہوتے ہیں۔(جاری)