Inquilab Logo

ساتویں آسمان پر بیت المعمور کے قریب آپؐ کی ملاقات حضرت ابراہیم ؑ سے ہوئی

Updated: September 25, 2020, 11:57 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

سیرت نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں آپؐ کے سفر معراج اور آسمانِ دنیا کی سیر کا تذکرہ جاری ہے۔ آج پڑھئےکہ آپؐ نے سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے سے قبل، دیگر آسمانوں میں کن انبیاء کرام علیہ السلام سے ملاقات کی

Nile River
مصر میں دریائے نیل کے ساحل پر سیاح۔ ایک حدیث کے مطابق دریائے نیل، سدرۃالمنتہیٰ سے جاری ہونے والی نہروں میں سے ایک ہے

 حضرت ابوسعید الخدریؓ کی اسی روات میں سفر معراج کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ مشاہدات بھی نقل کئے گئے ہیں: ’’پھر میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح لٹکے ہوئے تھے، ان کے ہاتھوں میں آگ کے گولے تھے جنہیں وہ اپنے منہ میں ڈالتے اور وہ پاخانے کے راستے سے باہر نکل آتے۔ میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلؑ نے جواب دیا: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظالمانہ طریقے سے ڈکار جاتے ہیں۔ پھر میںنے کچھ لوگوںکو دیکھا، ان کے پیٹ اس قدر موٹے اور بڑے تھے کہ میں نے ایسے پیٹ کبھی نہیں دیکھے، یہ لوگ آلِ فرعون کے راستے میں نظر آئے، وہاں سے وہ پیاسے اونٹوں کی طرح (تیزی کے ساتھ) گزر رہے تھے، جب ان کو آگ کے اوپر سے گزارا جاتا تو ان کی رفتار سست پڑجاتی، ان میں اتنی سکت بھی نہ رہتی کہ اپنی جگہ سے حرکت کرسکیں، میں نے دریافت کیا یہ کون ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ سود کھانے والے لوگ ہیں۔ 
 پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے سامنے تروتازہ اور پاک و طاہر گوشت رکھا ہوا تھا اور اس کے برابر میں سڑا  بھُسا گوشت بھی پڑا ہوا تھا، یہ لوگ اچھے اور چکنے گوشت کو چھوڑ کر تعفن زدہ گوشت کھا رہے تھے، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلؑ نے جواب دیا: یہ لوگ اپنی حلال عورتوں (بیویوں) کو چھوڑ کر ان عورتوں سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرتے ہیں جو اللہ نے ان پر حرام کی ہیں۔ اس کے بعد میں نے ایسی عورتوں کو دیکھا جو اپنے پستانوں سے لٹکی ہوئی تھیں، میرے سوال کرنے پر جبریلؑ نے بتلایا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے خاوند کے گھروں میں ایسے بچے کو داخل کردیا جو ان کا نہیںتھا، یعنی وہ بچہ غیرمردوں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔‘‘ (سیرت ابن ہشام ۱؍۲۹۲)
lدوسرے آسمانوںمیں
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:  ’’اس کے بعد مجھے دوسرے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں دو خالہ زاد بھائی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور یحییٰ بن زکریا علیہ السلام موجود تھے۔ پھر مجھے تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں ایک صاحب تشریف فرما تھے، جن کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن تھا، میں نے پوچھا: اے جبریلؑ! یہ کون صاحب ہیں؟ انہوںنے جواب دیا کہ یہ تمہارے بھائی یوسف بن یعقوب علیہ السلام ہیں۔ پھر مجھے چوتھے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی، میں نے ان کے متعلق پوچھا: یہ کون ہیں؟مجھے بتلایا گیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر مجھے پانچویں آسمان پر لے جایا گیا، وہاں میں نے ایک ادھیڑ عمر کے بوڑھے شخص کو دیکھا، ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے، ان کی داڑھی بہت گھنی تھی، میں نے کسی بوڑھے شخص کو ان سے زیادہ خوبصورت اور حسین نہیں دیکھا تھا چنانچہ دریافت کیا:  اے جبریلؑ! یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ یہ ہارون ابن عمران علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم کے اندر نہایت محبوب شخصیت کے مالک تھے۔ پھر مجھے چھٹے آسمان پر لے جایا گیا، وہاں میں نے گندمی رنگ کے ایک شخص کو دیکھا جن کی ناک بلند تھی اور قد دراز تھا، گویا وہ قبیلۂ شنوء ۃ کے مردوں میں سے ایک تھے، میں نے جبریلؑ سے معلوم کیا، یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ آپ کے بھائی موسیٰ ابن عمران علیہ السلام ہیں۔ بعد ازاں مجھے ساتویں آسمان پر چڑھایا گیا، وہاں ادھیڑ عمر کے ایک صاحب بیت المعمور کے دروازے کے قریب ایک کرسی پر تشریف فرما تھے ( بیت المعمور وہ جگہ ہے جس میں ہر روز سترہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، یہ فرشتے قیامت کے دن تک وہیں رہیں گے اور کبھی باہر نہیںآئیںگے)۔ میں نے تمہارے رفیق (مراد ذات اقدس رسول اللہ ﷺ) کو ان سے اور ان کو تمہارے رفیق سے زیادہ مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔ میں نے دریافت کیا: یہ کون ہیں؟ جبریلؑ نے عرض کیا: یہ آپ کے باپ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (سیرت ابن ہشام ۱؍۲۹۳)
lسدرۃ المنتہیٰ پر تشریف آوری
 سدرۃ المنتہیٰ کے قریب ساتویں آسمان پر بیر کا ایک درخت ہے، جسے سدرۃ المنتہیٰ ہی کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں اس درخت کا تذکرہ اس آیت کریمہ میں ملتا ہے:
  ’’اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک مرتبہ دیکھا ہے، اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے۔‘‘ (النجم:۱۳-۱۴)  اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریلؑ کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورودِ مسعود اس درخت کے قریب بھی ہوا، جنت بھی اسی درخت کے قریب واقع ہے، یہ ایک عجیب و غریب درخت ہے، دنیا کے درختوں سے بالکل مختلف؛ روایات میں ہے کہ اس کا پھل گھڑوں کے حجم کا ہوتا ہے، اس کے پتے اتنے بڑے ہوتے ہیں جیسے ہاتھی کے کان۔ (صحیح بخاری، ۳۸۸۷)
 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سدرۃ المنتہیٰ کے چاروں طرف رنگوں کا ہالہ رہتا ہے، میں نہیں جانتا وہ روشنیاں کیسی ہوتی ہیں؟ (صحیح مسلم:۱۶۳)
 شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ یہ ملائکہ ہیں جو پرندوں اور تتلیوں کی شکل میں سدرۃ المنتہیٰ کو گھیرے ہوئے ہیں، یہ درخت سونے کی طرح چمکتا ہے، چاندنی کی طرح اس کے نورمیں ٹھنڈک ہے اور سورج کی طرح روشنی بکھیرتا ہے، غرض یہ کہ وہ اس قدر حسین و جمیل ہے کہ اس کی تعریف ممکن نہیں، اللہ نے اس کا ایک وصف یہ بیان کیا ہے کہ یہ درخت جنت کے قریب واقع ہے، جو چیز جنت کے قریب واقع ہوگی اس کی عظمت کا کیا ٹھکانہ ہوگا، اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا، اس کی عظمت اور کرامت کا صرف احساس ہی کیا جاسکتا ہے۔
 سدرۃ المنتہیٰ کے متعلق تفسیر کی کتابوں میں حضرات صحابۂ کرام و تابعین عظام کے کچھ اقوال بھی نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ زمین سے جو چیز (اعمال وغیرہ) اوپر جاتی ہے وہ اس درخت پر جا کر رک جاتی ہے، پھر اس کو اوپر اٹھایا جاتا ہے، اسی طرح ملاء اعلیٰ سے جو چیز (احکام وغیرہ) نیچے اترتی ہے وہ بھی اس درخت پر آکر ٹھہرجاتی ہے، پھر نیچے بھیجی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے علوم کی غایت و نہایت سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ انبیاء اور ملائکہ علیہم السلام کی پہنچ اسی درخت تک ہے، وہ اس کی حد سے آگے نہیں جاسکتے۔ حضرت ضحاکؒ کہتے ہیں کہ بندوں کے اعمال سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ کر رک جاتے ہیں، وہاں سے ان کو وصول کیا جاتا ہے۔ حضرت قتادہؓ کہتے ہیں کہ مؤمنین کی روحیں سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔ حضرت علی ابن ابی طالبؓ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ اور طریقے پر چلنے والا ہوگا اس کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنے کی سعادت حاصل ہوگی۔
 ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سے چار نہریں جاری ہوئی ہیں، ان میں سے دو باطنی ہیں یعنی فی الوقت آنکھوں سے نظر نہیں آتیں اور دو ظاہری ہیں۔ باطنی نہریں جنت میں ہیں اور ظاہری نہریں دریائے نیل اور دریائے فرات ہیں۔ (المواہب اللدنیہ للزرقانی ۶؍۱۸، تفسیر القرطبی،، تفسیر سورۃ النجم، ص:۵۲۶)
lحضرت جبریلؑ اپنی اصل صورت میں 
 انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیم تک اللہ کا پیغام پہنچانے والے فرشتے حضرت جبریلؑ امین ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:  ’’امانت دار فرشتہ اسے لے کر اترا ہے، (اے پیغمبر) تمہارے دل پر اترا ہے تاکہ تم ان (پیغمبروں میں)  شامل ہوجائو جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔‘‘ (الشعراء:۱۹۳-۱۹۴)
 قرآن کریم میں حضرت جبریلؑ کو روح القدس بھی کہا گیا ہے۔ (سورہ النحل:۱۰۲) ملائکہ کی جماعت میں انہیں سردار کی حیثیت حاصل ہے: ’’وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، وہ مکمل امانت دار ہے۔‘‘ (التکویر:۲۱)
  فرشتے عموماً انسانی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ حضرت جبریلؑ  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وحی لے کر حاضر ہوتے تھے لیکن کوئی شخص انہیں دیکھ نہیں پاتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے عائشہؓ! یہ جبریلؑ ہیں، تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے کہا ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو، جبریل علیہ السلام وہ چیز دیکھ سکتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔ (صحیح مسلم، کتاب المناقب، باب فضل عائشہؓ، رقم الحدیث: ۲۴۴۷)
 اس روایت سے واضح ہوتاہے کہ حضرت عائشہؓ کی موجودگی میں حضرت جبریلؑ وحی لے کر آئے، لیکن نہ ان کی آمد کا حضرت عائشہؓ کو احساس ہوا اور نہ انہوںنے ان کو دیکھا۔ بعض اوقات حضرت جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں انبیاء و رسل کے پاس آیا کرتے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کے قصے میں اس کی صراحت موجود ہے کہ ان کے پاس حضرت جبریلؑ انسانی شکل میں آئے: ’’ہم نے ان کے پاس اپنی روح (یعنی ایک فرشتے) کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔‘‘(مریم:۱۷) 
حضرت دحیہ کلبیؓ ایک مشہور صحابی ہیں، یہ نہایت حسین و جمیل اور وجیہ شخص تھے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قاصد بناکر قیصر روم کے پاس بھیجا تھا۔ حضرت جبریلؑ اکثر اوقات ان ہی کی صورت اختیار کرکے آپ ﷺ کے دربار میں حاضر ہوتے تھے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۲؍۳۲۱)
عام طور پر انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہونے والے فرشتے اپنی اصل شکل میں نہیں آتے تھے بلکہ کسی دوسری شکل میں آیا کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی فرشتوں کی حاضری کایہی معمول تھا، لیکن دو مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی لے کر آنے والے فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میںدیکھا۔ 
lوہ دو مواقع کون سے تھے؟
 نزولِ وحی کی تفصیلات کے ضمن میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے بعد کچھ وقفے کے لئے وحی کا سلسلہ موقوف ہوگیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب ِ مبارک اس صورت حال پر پریشان رہا، آپؐ راہ چلتے آسمان کی طرف نظریں اٹھااٹھا کر دیکھا کرتے تھے اور فرشتے کی آمد کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ اسی طرح آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ رہے تھے کہ فرشتۂ وحی اترتا ہوا نظر آیا۔اس واقعہ کی تفصیل حضرت جابر بن عبداللہؓ نے اس طرح بیان کی ہے: فرماتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ سے سنا، آپؐ وحی موقوف ہوجانے کے واقعے کا ذکر کر رہے تھے، آپؐ نے ارشاد فرمایا: میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوںکہ وہ فرشتہ جو غارِحراء میں میرے پاس آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہوگئی، میںگھر واپس ہوگیا اور(گھر والوں سے ) کہا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، گھر والوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:   ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے، اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور گندگی سے کنارہ کرلو۔‘‘  (المدثر:۱-۴) یہ پہلا موقع ہے جب آپؐ  نے حضرت جبریل ؑکو ان کی اصل شکل میں دیکھا۔
دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر دیکھا، حضرت مسروقؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کیا مطلب ہوگا:  ’’پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک۔ اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی وہ نازل فرمائی۔‘‘ (النجم:۸؍تا۱۰))  حضرت عائشہؓ نے ارشاد فرمایا: وہ تو جبریلؑ تھے، وہ ہمیشہ آپؐ کے پاس انسانی شکل میں آتے تھے اور اس مرتبہ وہ آپؐ کے پاس اپنی اصلی شکل میں آئے اور انہوں نے آسمان کے افق کو بھر دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK