Inquilab Logo

آج کے دَور میں ہمارے پاس صرف تخلیقی اَدب ہی خالص صورت میں موجود ہے

Updated: March 20, 2023, 2:19 PM IST | dr Jameel Jalibi | Mumbai

تخلیقی ادب نے پہلے بھی اپنے معاشر ے، اپنی ثقافت ، اپنے انسان، اپنے مسائل کی ترجمانی کی ہے اور آج بھی کررہا ہے اور اس لئے کر رہا ہے کہ یہی اس کا مزاج، یہی اس کا منصب اور یہی اس کا کام ہے

There is a need to utilize the study of creative literature in various fields of universities, especially psychology, sociology, philosophy, social services, etc.
یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں با لخصوص نفسیات، سماجیات، فلسفہ، سماجی خدمات وغیرہ میں تخلیقی ادب کے مطالعہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے

یہ بات تو ہم مسلسل کہتے اور سنتے رہے ہیں کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے، ادب انسانی روح کا ترجمان ہے، ادب زندگی کا اظہار ہے، لیکن ہم نے اردو کے تخلیقی ادب کا مطالعہ اب تک اس انداز سے نہیں کیا کہ زندگی اور ادب کے اس حقیقی رشتے کی نوعیت سامنے آجاتی اور پتا چلتا کہ ادب یہ کام کس طور پر، کس سطح پر اور کس طرح انجام دیتا ہے، دیتا رہا ہے یا دے سکتا ہے۔ ادب اگر زندگی کا آئینہ یا ترجمان ہے تو اس آئینے میں زندگی کا ظاہر و باطن، زندگی کی داخلی اور خارجی دونوں صورتیں نظر آنی چاہئیں اور اسے زمانہ ٔ حال کی ترجمانی اس طور پر کرنی چاہے کہ مختلف علوم و فنون سے تعلق رکھنے والے لوگ جب ادب کا مطالعہ کریں تو انہیں انسان کے حوالے سے اس میں زندہ اور جیتی جاگتی جھلکیاں نظر آئیں اور ادب ان کے لئے بھی ایک زندہ حوالہ بن جائے۔ یہ کام اچھا اور بڑا ادب ہمیشہ کرتاہے۔
 فرائڈ، جس نے مطالعہ ٔ ادب سے علم نفسیات کے کلّیےاخذ کر کے نفسیاتی تجزیے کا ایک نیا دبستان قائم کیا اور انسانی بصیرت کے نئے گوشے اُجاگر کئے، کہا تھا کہ روسی ناول نگار دوستوفسکی نفسیات کو بحیثیت مجموعی ساری ”بین الاقوامی نفسیاتی سوسائٹی ‘‘سے کہیں زیادہ جانتا تھا۔ ادب کے مطالعے سے شعور ولا شعور کی ان قوتوں کی تصویر سامنے آجاتی ہے جن سے کسی فرد کی شخصیت کی تعمیر ہوئی ہے۔ ادب سے جہاں انسانی رویوں ، طر ز عمل اور محرکات کی واضح جھلکیاں سامنے آتی ہیں وہاں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ خاندان اور سماجی و معاشی دباؤ شخصیت کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ادب انسان کے دلوں میں، اس کے باطن میں، اس کے جذبوں اور احساسات میں داخل ہو کر اس ساری صورت حال کو اس سلیقے سے بیان کرتا ہے کہ انسان کے ذاتی وسماجی مسائل اور اس کشمکش اور جدوجہد کی تصویر اجا گر ہو جاتی ہے۔ ادب کی سطح پر داخلی اور خارجی کیفیات مل کر ایک اکائی ایک وحدت بن جاتی ہیں۔ ادب سماجی دھاروں، سماجی تبدیلیوں سماجی، ارتقاء اور ان سے پیدا ہونے والے انقلاب کی صورت گری بھی کرتا ہے۔ ادب اپنے دور کے ذاتی اور سماجی بحران کو سیاسی لیڈروں اور سماجی سائنس دانوں سے بہت پہلے دیکھ لیتا ہے۔
 میں نے کہیں لکھا تھا کہ جب دوسری جنگ عظیم چھڑی تو انگلستان کے ادبی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ اس کا کا ذمہ دار کون ہے؟ دانشور ادیب یا سیاستداں؟ دانشور ادیب کا کہنا تھا کہ اگر سیاستداں اس دور کے ادب کا مطالعہ کرتے رہتے تو جو کچھ ہوایا جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں وہ پہلے سے واقف ہو سکتے تھے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاستداں کو اتنی فرصت کہاں ہے کہ وہ ادب کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے۔ ساری دنیا میں آج بھی یہی صورت قائم ہے اور ادب اسی طرح بے مطالعہ و بے مصرف الماریوں میں بند پڑا ہے۔
 اس بارے میں دورا ئے نہیں ہو سکتی کہ جو کام ادب کرتا ہے وہ نفسیات، سماجیات اور فلسفہ بھی نہیں کرتا اور اس لئے نہیں کرتا کہ یہ تینوں علوم انسانی تجربوں کا تصوراتی، نظریاتی اور تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں اور انسانی زندگی کے تجزیوں کو پہلے الگ الگ کر کے اور پھر ترکیبی ضابطوں، نظام اور قوانین سے مربوط کر دیتے ہیں۔ ان کے برخلاف ادب انسانی زندگی کی اکائی کو توڑتا نہیں ہے بلکہ اُسے ساری انسانی زندگی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ ادب کی سطح پر وہ زندہ تجربے  اتنے زندہ اور توانا ہوتے ہیں کہ انہیں ترکیبی ضابطوں، قوانین اور تصورات کے ذریعے دوسروں کے اندر زندہ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس عمل کے لئے ضروری ہے کہ تخلیقی تخیل کے ذریعے ہی زندگی کی جیتی جاگتی صورت حال کو اس طرح اجاگر کیا جائے کہ اس سے جذبات کا تانابانا بُنا  جاسکے۔  یہ کام نفسیات، سماجیات اور فلسفہ  انجام نہیں دے سکتے۔ یہ کام مؤثر انداز سے صرف تخلیقی ادب انجام دیتا اور دے سکتا ہے۔ انسان خواہ خلاؤں میں پرواز کرنے لگے، مریخ و عطارد پر ڈیرے جما دے ، سائنس انسان کی ساری موجود تہذیب کو بدل کر رکھ دے ، جب تک انسان   اپنی موجودہ ہیئت میں ایک سالم اکائی کے طور پر زندہ باقی ہے، ادب کی اہمیت ہر صورت میں ہمیشہ باقی و برقرار رہے گی۔
 اردو ادب نے کم و بیش ہر دور  میں یہ کام انجام دیا ہے لیکن  ہماری ’’تنقید‘‘ نے اردو ادب کے مطالعے سے اس صورتحال کو دیکھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کی اسی لئے ادب کے ان دعوؤں کے باوجود یہ پہلو اسی طرح چھپے ہوئے ہیں۔ ہمارا تعلیمی منظرنامہ تو یہ ہے کہ ہمارے طلبہ جب  ’’نفسیات‘‘ پڑھتے ہیں تو وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں ہمارے معاشرے اور ہمارے فرد کی نفسیات کا مطالعہ نہیں ہوتا۔ جب سماجیات پڑھتے ہیں تو ان کتابوں میں بھی ہمارے سماج کا مطالعہ نہیں ہوتا اور جب فلسفہ پڑھتے ہیں تو اس میں بھی ہمارے فلسفے کا مطالعہ نہیں ہوتا۔ اب لے دے کر صرف تخلیقی ادب رہ جاتا ہے جس نے پہلے بھی اپنے معاشر ے، اپنی ثقافت ، اپنے انسان، اپنے مسائل کی ترجمانی کی ہے اور آج بھی کررہا ہے اور  اس لئے کر رہا ہے کہ یہی اس کا مزاج، یہی اس کا منصب اور یہی اس کا کام ہے۔ آج کے دور میں ہمارے پاس صرف ادب ہی خالص صورت میں موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔
 کئی سال پہلے میں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ سماجی خدمت (سوشل ورک) کے طلبہ و اساتذہ کے سامنے یہ سوال اٹھایا  تھا کہ تربیتی پروگرام اور جن مقاصد، موضوعات، مواد ، تدریس اور طریق تدریس کو آپ استعمال کررہے ہیں ان سب کا ملک کی ترقیاتی ضرورتوں اور حقیقی مسائل سے کیا تعلق ہے؟ اور ان سب نے کھلے دل سے اعتراف کیا تھا کہ یہ سوال درست ہے اور اس پر کبھی غور ہی نہیں کیا گیا ۔ دیکھا جائے تو  ہم نے اپنے تخلیقی ادب کو سماجی خدمت (سوشل ورک) کیلئے استعمال ہی نہیں کیا ۔
  جب تک ہم اپنے تخلیقی ادب کو اپنی تعلیم کے جدید شعبوں اور جدید علوم میں استعمال کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، جب تک ہم اپنے مسائل، اپنے سماج ،اپنے افراد اور اپنے انسان کو موضوعِ فکر اور موضوع تعلیم نہیں بنائیں گے ، تب تک ہم ہرگز وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے جس کی خواہش ہمارے دلوں میں مو جز ن ہے۔ 
 اس پس منظر میں  یہ بات واضح  ہوتی ہے کہ ہم نے اپنے تحقیقی ادب کا مطالعہ اپنے سماج ،اپنی نفسیات، اپنے کلچر، اپنے نظام اقدار، اپنے انسان،  اپنے مسائل اور اپنی تہذیبی  صورت حال کے نقطۂ نظر سے نہیں کیا حالانکہ لے دے کر صرف تخلیقی ادب ہی ہمارے پاس خالص صورت میں باقی رہ گیا ہے۔ اس طرح ہم نے اپنے بڑے خزانے کو مقفل کر کے زمین میں دفن کر دیا ہے۔
  ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جامعات کے مختلف شعبے با لخصوص نفسیات، سماجیات، فلسفہ،  سماجی خدمات  وغیرہ تخلیقی ادب کے مطالعہ سے استفادہ کر کے  مواد تدریس تلاش کریں اور اس کام سے ادبیوں کو بھی وابستہ کریں تاکہ ہمارا ادیب بھی نہ صرف مقامی گروہوں اور آبادیوں کا مطالعہ کرے، اُن سے ملے ،ان کو محسوس کرےاور عوام سے گہرا رشتہ قائم کرے بلکہ اس طرح اس کی تخلیقات بھی اس کے اپنے معاشرہ کی زندہ ترجمانی کر سکیں۔
 جب تک ہمارے ادیب اپنے عوام سے اور اپنے معاشرے کی جڑوں سے گہرا اور براہ راست رشتہ قائم نہیں کریں گے ان کی تخلیقات کی روشنی تیز نہ ہو سکے گی ۔ ژاں پال سارتر نے کہا تھا کہ میں یہاں سڑک پر اس لئے کھڑا ہوں تا کہ گواہی دے سکوں کہ میں ایک دانشور ہوں اور میرا بھی عوام سے رشتہ اسی طرح قائم ہو جس طرح انیسویں صدی سے فرانسیسی ادب کا قائم ہو گیا تھا۔ جب بھی ادیب اور عوام کا یہ رشتہ قائم ہو جاتا ہے تو اس کے تخلیقی و فکری سطح پر بہت اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی آج اسی رشتے کو زندہ و قائم کرنے کی ضرورت ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK