Inquilab Logo

اُترپردیش میں مودی اورامیت شاہ کی جوڑی نےنہایت چالاکی سےیوگی کوکنارےلگادیا ہے

Updated: January 18, 2022, 3:58 PM IST | DK Singh | Mumbai

وزیراعلیٰ یوگی ایک خاص مشن کے تحت مودی بننے چلے تھے اوراس کیلئے اپنے طور پر کوششیں بھی شروع کردی تھیں ، اخبارات میں صفحات کے صفحات ترقیاتی کاموں کے اشتہارات شائع ہوئے لیکن اب ایک بار پھر پولرائزیشن کی سیاست کرنے پر مجبور ہیں

 From day one, Modi and Amit Shah felt that they could not succeed in the name of Yogi in Uttar Pradesh..Picture:INN
مودی اور امیت شاہ کو پہلے دن سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ اترپردیش میں یوگی کے نام پر کامیابی نہیں مل سکے گی۔ تصویر: آئی این این

الیکشن کمیشن نے اترپردیش اسمبلی انتخابات کو مغربی اترپردیش سے شروع کرکے مشرقی اترپردیش تک ۷؍ مرحلوں میں کرانے کا پروگرام کیوں بنایا؟ بی جے پی کے کئی لیڈر اور بہت سے سیاسی ماہرین یہ سوچ رہے تھے کہ متنازع زرعی قوانین کو واپس لینے کے باوجود حکمراں پارٹی کچھ اور وقت حاصل کرنا چاہے گی تاکہ جاٹ کسانوں کے غصے پر قابو پایا جا سکے۔ بہر حال، یہ طے ہے کہ اتر پردیش کے ’جاٹ لینڈ‘ کے لوگ گنے کے رس کا گلاس لے کر بی جے پی لیڈروں کے استقبال کیلئے کھڑے نظر نہیں آرہے ہیں، تو ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اُس علاقے سے ووٹنگ کے آغاز کا کیوں فیصلہ کیا گیا جہاں کی ہوا بی جے پی کیلئے سازگار نہیں ہے؟ اس کی شروعات مشرقی اترپردیش سے کئے جانے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا تاکہ اتنے دنوں میں وہ   اتنی رفتار حاصل کرلے کہ ووٹنگ کا مرحلہ جب مغربی اترپردیش تک پہنچے تو اگرکوئی ناموافق ہوا ہو بھی تواس کا سامنا کیا جاسکے۔  اب جبکہ الیکشن کمیشن نے تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے تو پھر اس طرح کے سوالات بے معنی لگ سکتے ہیں۔ ویسے بھی   وہ اس بات کی فکر کیوں کرے کہ بی جے پی کیلئے کیا مفید ہوگا اور کیا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن  ایک خود مختار ادارہ نہیں  ہے؟اور چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا، جو سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز(سی بی ڈی ٹی) کے چیئرمین رہ چکے ہیں، بہتر جانتے ہوں گے کہ سیاسی دباؤ سے کیسے نمٹا جاتا ہے؟ الیکشن کمیشن کے دفاع میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے پچھلے انتخابات کے مغربی یوپی سے مشرقی  یوپی کے ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کیا ہوگا۔۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات اور۲۰۱۷ء کے اسمبلی انتخابات میں بھی اسی سلسلے کی پیروی کی گئی تھی۔ اب اسے اتفاق قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ تب بی جے پی کیلئے سازگار ثابت ہوا تھا۔۲۰۱۳ءکے مظفر نگر فسادات کے بعد، مغربی یوپی کے جاٹ بی جے پی کے حق میں ہو گئے تھےجس کی وجہ سے انتخابات کے ابتدائی مراحل میں اسے بڑی برتری  حاصل ہوگئی تھی... لیکن۲۰۲۲ء کے الیکشن کا پس منظر مختلف ہے۔  گنے کی سرکاری قیمتوں میں کمی اور بقایا جات کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں میں اضافے پر کسانوں کے غصے کا استعمال کرتے ہوئے، راکیش ٹکیت جیسے  لیڈروں نے کسانوں کو مرکزی حکومت کے تین متنازع زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کیلئے منظم کیا۔ مودی حکومت نے انہیں واپس تو لیا  لیکن کسانوں کی ناراضگی کو پوری طرح سے دور نہیں کر سکی۔ اس نے آر ایل ڈی لیڈر جینت چودھری کو اپنے دادا چودھری چرن سنگھ اور والد اجیت سنگھ کی سیاسی وراثت کو نئے سرے سےمضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا۔ مغربی یوپی کے برج اور روہیل کھنڈ علاقوں کے۲۶؍ اضلاع میں۱۳۶؍ اسمبلی سیٹیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان علاقوں میں پہلے۳؍ مرحلوں میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کی تحریک کی گونج اس خطے کے بڑے حصے میں سنی گئی ہے، اسلئے یوپی میں بی جے پی کے کچھ لیڈر چاہتے تھے کہ ووٹنگ مشرقی اتر پردیش سے شروع ہو۔ یہ اور بات ہے کہ مرکزی قیادت نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔  اب بی جے پی کے  بعض لیڈراس   کے بارے میں بہت سی مثبت باتیں بتا رہے ہیں۔ایک نے کہا کہ ’’بہتر ہوگا کہ انتخابات کے آغاز ہی میں کسانوں کے غصے کا سامنا کرلیا جائے۔‘‘ دوسرے نے کہا کہ ’’ہم نے اپنے امیدواروں کی فہرست تیار کرلی ہے جبکہ وہ ( آر ایل ڈی لیڈرجینت چودھری اور سماجوادی سربراہ اکھلیش یادو) ابھی اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ کون کس  سیٹ پر الیکشن لڑے گا۔ ہم نے سبقت حاصل کرلی ہے۔‘‘ تیسرے لیڈر، جویوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں وزیر ہیں، کا کہنا  ہے کہ ’’اگر ہم نے مشرق سے شروعات کیا ہوتا، تواشارہ جاتا  کہ ہمارے پاس اعتماد کی کمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم الیکشن میں سب کا صفایا کر دیں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم مغرب سے شروع کررہے ہیں یا مشرق سے؟‘‘   بہرحال بہت جلد بی جے پی نے اس کا اشارہ کردیا کہ مغربی یوپی سے انتخابات کے آغاز میں اس کا فائدہ کس طرح ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذریعہ انتخابی تاریخوں کے اعلان سے پہلے ہی یوگی کا بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی جے پی کے ذہن میں کیا ہے اور وہ کس ایجنڈے  کے تحت کام کرنے والی ہے۔ وزیراعلیٰ  نے کہا کہ یوپی انتخابات۲۰؍ فیصد کے مقابلے ۸۰؍ فیصد کے درمیان ہوں گے۔   اس دوران ۲؍ جنوری کو میرٹھ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے کی گئی تقریر بھی سامنے آئی۔ دی ’ہندو‘ اخبار کی خبر کے مطابق وزیراعظم نے فرقہ وارانہ کھیل کھیلتے ہوئے کہا کہ’’یہاں `خواتین کے خلاف فحش تبصرے کئے جاتے تھے، پھبتیاں کسی جاتی تھیں، فسادات کے دوران لوگوں کے گھرجلائے جاتے تھے اور انہیں اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ بی جے پی حکومت اب ایسے مجرموں کے ساتھ ’جیل،جیل‘ کھیل رہی ہے۔‘‘ وہ بالواسطہ طور پر۲۰۱۳ء کے مظفر نگر فسادات اور کیرانہ سمیت قریبی علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کا حوالہ دے رہے تھے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی اپنی انتخابی میٹنگوں میں بار بار کیرانہ سے لوگوں  کی نقل مکانی کا ذکر کرتے رہے ہیں۔  اشارہ مل گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس طرح کی سیاسی بیان بازیوں میں شدت آنے والی ہے کیونکہ مغربی یوپی کی آبادی ،اس طرح کی ماحول سازی کیلئے ایک آسان پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ اس خطے کی آبادی کا تقریباً۲۵؍ فیصد مسلمان ہیں۔ روہیل کھنڈ خطے کے رام پور اور مرادآباد جیسے کچھ علاقوں میں تقریباً۵۰؍ فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ اسدالدین اویسی جیسے شعلہ بیان مسلم لیڈر جن کی آل انڈیا مجلس اتحاد  المسلمین (اے آئی اے ایم آئی ایم) اس خطے کی تقریباً۱۰۰؍ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی  بی جے پی لیڈروں کی آنکھوں میں ایک چمک  پائی جاتی ہے۔  ووٹنگ مغرب سے شروع ہو کر مشرق کی طرف جانا مجموعی طور پر بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کے مطابق ہے۔ یوگی کے ’ترقیاتی ایجنڈے‘ کا اب کوئی ذکر نہیں ہے، نہ ہی اس سوشل انجینئرنگ کی بات کی جاتی ہے جسے امیت شاہ نے بڑی محنت سے۲۰۱۴ء میں مختلف ذاتوں اور ذیلی ذاتوں کے لیڈروں کو این ڈی اے کی چھتری میں لا کر، پسماندہ طبقات اور دلتوں کے طبقوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کیا تھا۔ اب بی جے پی کے انتخابات کے ایجنڈے میں ہندو مسلم پولرائزیشن کو مغرب سے دوسرے خطوں تک لے جانا ہے۔یہ ایجنڈا نہ صرف یوپی انتخابات کے نتائج کو متاثر کرے گا بلکہ یہ  ’یوگتوا‘ کو بھی کمزور کرے گا جو کہ’مودتوا‘ سے وجود میںآیاہے، جسے ہندوتوا کی بنیاد پر ترقی کے ایجنڈے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔۲۰۰۲ء کے گودھرا فسادات کے بعدجس فرسودہ جملے ’ہندو  ہردئے سمراٹ‘ کا تذکرہ مودی کیلئے کیا جانے لگا تھا، ۲۰۱۳ء تک جب تک گجرات کے وزیر اعلیٰ نے خود کو ایک قومی کردار کیلئے پیش کیا تھا، ایک بڑی شخصیت کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس شخصیت کی تعریف بے لوث انسان دوستی اور عوامی فلاح و بہبود  کے طور پر کی جانے لگی تھی۔  ایک منظم کوشش کے تحت یوگی بھی خود کو مودی کے سانچے میں ڈھال رہے تھے اور چارہی سال میں وہ  حاصل کرلینا چاہتے تھے جو مودی نے دس سال میں کیا تھا یعنی   اپنی سابقہ شبیہ میں تبدیلی۔ یوگی نے’انسداد مخالف گروپ‘ کی تشکیل اور مذبح خانوں کو بند کرنے کی مہم شروع کی ہو، لیکن وہ جلد ہی دوسرا مودی بننے میں مصروف ہوگئے.... اور اسی دُھن میں انہوں نے اپنے والد کی آخری رسومات میں شریک نہ  ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنی ماں کو ایک خط  لکھا تھا  کہ انہوں نے اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت کیوں نہیں کی۔ انہوں نے لکھا کہ انہیں ریاست کے۲۳؍ کروڑ افراد کی خدمت کرنا ہے، جو وبائی امراض کا سامنا کر رہے ہیں۔   مودی کی طرح وہ بھی اپنی ذاتی شبیہ کو داغدار نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ کی تعریف بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے کی جائے جیسے — آگرہ،لکھنؤ ایکسپریس وے، پوروانچل ایکسپریس وے، بندیل کھنڈ ایکسپریس وے، گورکھپور لنک اور گنگا ایکسپریس وے — اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات وغیرہ۔ الیکشن سے پہلے ان کی حکومت کے اشتہارات پر غور کریں۔ ان میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ ترقی کے محاذ پر ان کی حکومت کی کامیابیاں اور حصولیابیاں کیاکیا ہیں؟   شبیہ سازی کی ان کی کوششوں سے آپ  اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن  حقیقت یہ ہے کہ وہ مستقبل کا مودی بننے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے مگر یوگی اور ان کی پارٹی کے سینئر لیڈروں کے تازہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی یوپی  سے مشرقی یوپی تک گھومتا پہیہ پولرائزیشن  ہی کے سہارے   بی جے پی الیکشن جیتنے کی کوشش کررہی ہے۔   اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اگر۱۰؍ مارچ کو انتخابی نتائج ظاہر ہونے کے بعد بھی یوگی  اقتدار میں باقی رہتے ہیں تو انہیں  اس کامیابی کا کریڈٹ نہیں ملے گا۔نومبر سے اب تک یوپی میں۱۴؍ انتخابی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کرنے والے مودی ہی اگر ریاست کا انتخابی چہرہ ہیں اور اگر ہندو مسلم سیاست ہی اصل انتخابی حکمت عملی ہے تو پھر یوگی اور بی جے پی کے دیگر وزرائے اعلیٰ میں کیا فرق ہے؟ بی جے پی کسی سنجیو بالیان یا سنگیت سوم یا اجے مشرا ٹینی یا نرنجن جیوتی یا کسی اور بھگوا پوش لیڈر کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بی جے پی یوگی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانے پر ازسر نو غور کر رہی ہے۔یہ صرف اس بات کی نشاندہی کرنے کی کوشش ہے کہ یوگی یوپی میں بی جے پی کے وسیع تر انتخابی ایجنڈے میں کسی بھی طرح اب ’کلید‘ نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ ایک دوسری ریاست کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر رہ گئے ہیں جن کی سیاسی قسمت کا انحصار مودی کی زبردست مقبولیت اور ہندوتوا کو اہم جارحانہ مسئلہ  بنائے رکھنے کے طور پر ہے۔  یوپی الیکشن، جو کبھی یوگی آدتیہ ناتھ، ان کی شخصیت اور ان کے ترقی کے ایجنڈے کے  اردگرد مرکوز تھا، تیزی سے مودی کے انتخاب میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور امیت شاہ کیلئے یہ دکھانے کا موقع بنتا جا رہا ہے کہ آخر مودی نے ۲۰۱۴ءمیں جب وہ یوپی کے انتخابی انچارج تھے، تب انہیں ’مین آف دی میچ‘ کیوں کہا تھا؟ صورتحال یہ ہے کہ یوگی ان کے ساتھ کھیلنے کے علاوہ اور کچھ کربھی نہیں سکتے۔n مضمون نگار ’دی پرنٹ‘ کے سیاسی مدیر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK