آج جب اسرائیل اور امریکہ کو یہ معلوم ہوا کہ اسے شکست سے دو چار کرنے والی غزہ فورس کے سردار اسما عیل ہانیہ قطر میں موجود ہیں اور ان سے بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب قطر ایسا چاہے۔ ہانیہ کے بغیرکسی اور سے بات کرنا ممکن ہی نہیں تھا، کیونکہ اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں اسرائیل بھی کچھ نہیں جانتا، چنانچہ قطر کی راہ بلکہ مشورہ سے اسماعیل ہانیہ سے بات ہوئی۔
قطر آج دنیا میں جنگ و امن کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔تصویر:آئی این این
قطر عرب دنیا کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔ یوں تو قدرت نے اسے گیس کی ایسی لازوال دولت بخشی ہے کہ وہ عربوں ہی کی نہیں سارے ایشیائی خطہ کی پرورش کرتا ہے۔ اس کے پاس دوسرے عرب ممالک کی طرح تیل کی دولت نہیں ہے۔ قدرت نے اس کے بدلے میں اسے فطری گیس سے مالا مال کیا ہے۔ قطر کی اس وقت مجموعی آبادی ۲۷ ؍لاکھ کے قریب ہے، اس میں سے چوبیس لاکھ وہ لوگ ہیں جو ہندوستان، پاکستان اور کئی دوسرے ممالک سے یہاں روزی روزگار کمانے آئے ہوئے ہیں ۔ اس طرح قطر کی نجی آبادی صرف تین لاکھ کے قریب ہے، یہ بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہے کہ آج محض تین لاکھ کی آبادی کے اس ملک کے سامنے اسرائیل سانس تھامے اور سر جھکائے کھڑا ہے، کیونکہ غزہ میں حماس نے اسے سر جھکانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسرائیل کی آبادی ۸۰ ؍لاکھ کے قریب ہے۔ اور اسرائیل ہی کیوں ، آج دنیا کی سپر پاور بھی قطر کے سامنے کھڑی ہے، امریکہ جس کی آبادی ۲۷ ؍کروڑ سے بھی زیادہ ہے، اسے بھی غزہ سے وہ یرغمال مطلوب ہیں جو وہاں کام کر رہے تھے۔
آج جب اسرائیل اور امریکہ کو یہ معلوم ہوا کہ اسے شکست سے دو چار کرنے والی غزہ فورس کے سردار اسما عیل ہانیہ قطر میں موجود ہیں اور ان سے بات اسی وقت ہو سکتی ہے جب قطر ایسا چاہے۔ ہانیہ کے بغیرکسی اور سے بات کرنا ممکن ہی نہیں تھا، کیونکہ اس کے علاوہ کسی اور کے بارے میں اسرائیل بھی کچھ نہیں جانتا، چنانچہ قطر کی راہ بلکہ مشورہ سے اسماعیل ہانیہ سے بات ہوئی اور اسی وجہ سے یہ جنگ بندی ہو سکی۔ ہاں قطر کے پاس ایک اور قوت بھی موجود ہے، وہ قوت جو آج کی دنیا میں شاید سب سے بڑی دولت ہے۔ اس دولت کا نام انفارمیشن ہے۔ قطرکے پاس دنیا کا سب سے مؤثر چینل الجزیرہ بھی ہے، یہ وہ چینل ہے جس نے مغربی دنیا کا سر نیچا کر دیا ہے، بہرحال تین لاکھ کی آبادی اور عرب دنیا میں ایک قطعہ کے برابر اہمیت رکھنے والا قطر آج دنیا میں جنگ و امن کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔
جیسا کہ اس کالم میں پہلے ہی بتایا جا چکا ہے اسرائیل کی ’سب سے عقلمند سمجھی جانے والی حکومت ‘ کو یہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ موجودہ حالات کا تعطل ختم کرنے کیلئے بات چیت کس سے کی جائے، حماس سے بات کرنے کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ اس نے حماس کو مان لیا ہے، یہ اس کی ڈپلومیسی کی بڑی شکست ہوتی۔ شاہ اردن سے بات ہو سکتی تھی لیکن اسرائیل بھی جانتا تھا اور اردن کے شاہ حسین بھی جانتے تھے کہ حماس ان کی بات پر کبھی یقین نہیں کرے گا۔ وہ تو انہیں اسرائیل کا پٹھو سمجھتا تھا، کوئی اور عرب بھی آگے نہیں آسکتا تھا کہ اس وقت تمام عرب ریاستیں فلسطین اوراس کے عوام کیلئے مرہم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ تو پھر بات کیسے شروع کرے اور اسرائیل کی طرف سے کون حماس کے سامنے جانے کی ہمت کرے گا، امریکہ نے بھی سوچا کہ اگر اس نے کوئی پہل کی تو بھی وہ فلسطینیوں اور دنیا کو بمشکل یقین دلا پائے گا کہ وہ غیرجانبدار ہے۔
آخر کار امریکی ایڈمنسٹریشن نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ قطر کیلئے اسے اپنےوزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو ہی بھیجنا پڑے گا، جی ہاں وہی انٹونی بلنکن جنہوں نے پہلی بار اسرائیل کا دورہ کرتے وقت کہا تھا کہ آج یہاں بطور یہودی بن کر آئے ہیں ، بلنکن کو بات ماننا پڑی، وہ چار وناچارحماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کے پاس پہنچے، وہ یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ بندی میں توسیع کیلئے گئےتھے ، اس لئے جانتے تھے کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان کے قطر میں آنےکا کیا مقصد ہے۔ اس کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے کہ ان کی اسماعیل ہانیہ سے ملاقات ہوئی یا نہیں ، لیکن انہوں نے شاہ قطرکے ذریعہ بات چیت کا آغازکیا، قطر کے بادشاہ تو اس وقت صلح بین تھے، انہوں نے اسماعیل ہانیہ کے سامنے اسرائیلی حکومت کی درخواست رکھی اور اسماعیل ہانیہ نے سولہ سے سترہ یرغمالوں کی رہائی کی بات مان لی۔ اُنہوں نے اس کے بدلے میں اسرائیل سے دس گنا زیادہ یعنی ۱۱۸ ؍فلسطینی اور غزہ سے اسرائیلی قیدی مانگے اور بلنکن کو یہ بات ماننا پڑی۔
ہم آپ کو یرغمالوں کے کچھ واقعات بتاتے ہیں ، اسرائیل نے اپنی انفارمیشن کے ذرائع تباہ کر دیئے ہیں تاکہ اس کی خبریں باہر نہ جاسکیں لیکن روسی اور عربی چینلوں پر یہ وی لاگ دیکھے جا سکتے ہیں ، ہم نے بھی یہ ویڈیو دیکھے ہیں ۔ اگر آپ چاہیں تو گوگل کی تلاش کے کالم سے ان کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں ۔
آپ کو ہم یرغمالوں کی واپسی کا راستہ بھی بتاتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ حکومت اسرائیل یرغمالوں کو مانگے اور حماس انہیں فوراًان کے حوالے کر دے۔ یہ یرغمالی ایک خاص مقام تک لے جائے جاتے ہیں اور پھر انہیں ریڈکراس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ریڈ کراس اپنی گاڑیاں یا ایمبولنس تک لاتی ہے، پھر انہیں ترتیب اور نمبر سے ریڈ کراس کو سونپا جاتا ہے، اس کے بعد یہ یرغمالی اردن لے جائے جاتے ہیں اور پھر اردن کی حکومت انہیں اسرائیل کے حکام کے سپرد کرتی ہے، ہم نے ان یر غمالیوں کے بارے میں کچھ ویڈیو لاگس غور سے دیکھے ہیں ، ایک ویڈیو میں ہم نے دیکھا کہ ایک جوان اسرائیلی خاتون جو یرغمال تھی جب قید سے چھوٹی تو اس نے زیر زمین بنی ہوئی ایک ٹرین میں سفر کیا۔ اس کے سامنے والی بنچ پر ایک عرب معمر خاتون تھی جو اپنے موبائل پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ اسرائیلی یرغمال اسے دیکھتی رہی، گفتگو ختم ہوتے ہی وہ اس معمر عرب خاتون کے پاس گئی، دونوں عبرانی میں بات کر رہے تھے، معمر عرب خاتون نے بتایا کہ اس کے دو بیٹے جنگ میں مارے گئے ہیں ، اس نے اسرائیلی خاتون سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہوا ہے، اسرائیلی عورت کچھ بے چین ہوئی پھر اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ یہ سب کیا تھا لیکن وہ اس کا حصہ نہیں تھی، پھر اس نے عرب عورت سے کہا کہ کیا میں آپ کے گلے مل سکتی ہوں ، دونوں گلے ملیں ، دونوں اپنے اسٹیشن پر پہنچ گئی تھیں ، بچھڑتے وقت بھی اسرائیلی ان عرب خاتون سے ایک بار پھر گلےملیں ، دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
ہمیں یہ سخت خیال آیا کہ کاش انٹونی بلنکن اس ویڈیو کو دیکھ لیتے، انہوں نے دیکھا بھی ہو گا کیونکہ حماس اپنے کمیونکیشن پر قابو پاچکا ہے اور وہ یہ ویڈیو ساری دنیا کو ارسال کرتا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں اسرائیلیوں کو دکھایا گیا ہے، ان میں ایک نوجوان عورت بھی تھی جس کے پاس ایک پالتو کتا تھا۔ یہ کتا بھی بخیر تھا، ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ حماس کے یہ ’دہشت گرد‘ صرف خاندانوں کی نہیں ان کے کتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں ، ہمیں انسانیت کی وہ خوشبو نظرآئی جس کیلئے آج کی دنیا ترستی ہے۔ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ انسانیت کی یہی خوشبو ایک بار پھر اس مقدس خطہ کو مہکائے گی۔