Inquilab Logo

پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح: صدر کی عدم موجودگی درست تو پھر اپوزیشن کا احتجاج کیونکر غلط ؟

Updated: May 29, 2023, 4:26 PM IST | Prem Kumar | Mumbai

ان دنوں ملک میں ایک نئی بحث چھڑی ہے۔ اس کا موضوع ہے کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح وزیراعظم کیوں کریں؟

The new Parliament building has been in controversy since the foundation stone was laid
پارلیمنٹ کی نئی عمارت جو سنگ بنیاد کے وقت ہی سے تنازع کا شکار ہے

ان دنوں ملک میں ایک نئی بحث  چھڑی ہے۔ اس کا موضوع ہے کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح وزیراعظم کیوں کریں؟ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نہیں تو کون کرے؟ کچھ حلقوںسے کہا جارہا ہے کہ صدر جمہوریہ کیوں نہیں؟  سوال یہ بھی ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے علاوہ کوئی اور بھی اس کا  افتتاح کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کی روشنی میں بحث کی بنیاد کو سمجھنا ضروری ہےاور اس کی بنیاد ہمیں آئین نے فراہم کی ہے۔ پارلیمنٹ کا مفہوم آئین میں بیان کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کا مطلب ہے صدر، دونوں ایوان اور حکومت۔
 ہم نے صدر کو میزبان کے کردار سے دور رکھا ہے۔ ان کی عزت افزائی ہوتی ہے اور وہ عزت افزائی کرتے ہیں۔ ایسے میں دیکھنا ہوگا کہ قانون اور قاعدے کے مطابق نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی افتتاحی تقریب کی میزبانی کا فریضہ کسے ادا کرنا چاہئے؟فی الحال اِس وقت تقریب کا  دعوت نامہ لوک سبھا کےسیکریٹری جنرل کی جانب سے دیا جارہا ہےجو  اسپیکر کو رپورٹ کرتے ہیں۔
میزبان اور مہمان کا فیصلہ
 لوک سبھا کی نئی عمارت بنانے کا فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ مودی حکومت نے کیا تھا۔اس مد میں خرچ ہونے والے ہزاروں کروڑ روپوں کا انتظام بھی حکومت ہی نے کیا ہے۔ایسے میں دیکھا جائے تو اس کی میزبان دراصل حکومت ہے، اسلئے مہمانان کو مدعو کرنے کا فیصلہ بھی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم نریندر مودی کو خود لینا چاہئے۔
 لیکن افسوس کہ جنہیں میزبان ہونا چاہئے،جنہیں مہمانان کو مدعو کرنا چا ہے، وہ خود ہی مہمان بن بیٹھے۔ اب وہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کریں گے۔ اس فیصلے کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدر مملکت کو اب مدعو بھی نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ پروٹوکول اس کی مخالفت کرتا ہے۔صدر کی موجودگی میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح وزیراعظم نہیں کر سکتے۔ یہ پروٹوکول چیخ  چیخ کر کہہ رہا ہے کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح وزیراعظم  سے نہیں کرایا جانا چاہئے۔
پروٹو کول کیا کہتا ہے؟
 آئیے دیکھتے ہیں کہ پروٹوکول کیا کہتا ہے؟ صدر کو نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تقریب سے دور رکھنے کی اصل وجہ پروٹوکول ہے۔ اگر اپوزیشن کی جماعتیں کہتی  ہیں کہ صدر کا خاتون ہونا یا ان کا قبائلی ہونا اس تقریب میں  ان کی شرکت کیلئے رکاوٹ بن رہا ہے،تو یہ صرف جذباتی باتیں ہیں،منطقی نہیں۔ صدر کو اس تقریب میں مدعو نہ کرنے کی وجہ ان کی توہین کرنا ہرگز نہیں ہے.... لیکن توہین توہو رہی ہے۔
 پارلیمنٹ ہاؤس صرف اینٹ، گاروںسے بنی ہوئی کوئی عمارت نہیں ہے۔یہ ہندوستانی جمہوریت کی عمارت ہے جس کی سربراہی صدر کرتے ہیں۔  وہ صدر جو وزیر اعظم کا تقرر کرتا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں، کوئی پارٹی خواہ کتنا ہی بڑا مینڈیٹ کیوں نہ لے آئے، وہ پہلے سے طے شدہ طور پر حکومت بنانے کیلئے اہل نہیں ہوتی۔  صدر کی جانب سے  مدعو کئے جانے کے بعد ہی کسی پارٹی کا منتخب لیڈر وزیر اعظم کا حلف اٹھا سکتا ہے۔ وزراء کی کونسل بھی صدر کی مرضی سے  قائم رہتی ہے۔ یہ ایک آئینی انتظام ہے جس کا احترام سب کو کرنا پڑتا ہے اور سب کو کرنا بھی چاہئے۔ ایسے میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی افتتاحی تقریب سے دور رکھنا صدر مملکت کی توہین ہے۔ بھلے ہی مودی سرکار کا ایسا کوئی ارادہ نہ ہو اور پروٹوکول کی مجبوری کی وجہ سے  ایسا ہو رہا ہو۔
افتتاح اتفاق رائے سے ہونا چاہئے
  نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح خواہ کوئی بھی کرے لیکن یہ کام اتفاق رائے سے ہو نا چاہئے، کوئی تنازع  اور کسی سوال کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے تھی، تبھی یہ درست ہوتا۔ چونکہ وزیراعظم کے ہاتھوں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کا فیصلہ کرتے ہی، صدر جمہوریہ خود بخود اس تقریب سے باہر ہو جاتے ہیں، اسلئے  یہ فیصلہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ ہندوستان کا ہر شہری نئے راشٹرپتی بھون کے افتتاح کیلئے پوری طرح اہل ہے، اس کے مطابق نریندر مودی بھی اہل ہیں لیکن  وزیراعظم ہونے کے پروٹوکول کی وجہ سے انہیں افتتاحی تقریب میں صدر کی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے خود افتتاح کرنے کے عمل سے دستبردار ہونا چاہئے تھا۔
راہل گاندھی نے آواز بلند کی
 اس معاملے کو راہل گاندھی نے سب سے پہلے اٹھایا۔ کہا جاتا ہے کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کیلئے صدر مملکت سے مشاورت کی گئی۔ یہ بالکل درست عمل تھا۔ بعد میں راہل گاندھی کے اس خیال کو ترنمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے بھی آگے بڑھانا شروع کیا۔ اب۱۹؍ جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کریں گی۔اس فیصلے پر یہ کہہ کر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پارلیمنٹ ہاؤس ملک کا ہے، سب کا ہے۔ اسلئے اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے....  لیکن پھر یہی منطق وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ  اُس پارلیمنٹ ہاؤس کی افتتاحی تقریب پر قبضہ نہ کریں جو پورے ملک کا ہے۔
  صدر مملکت اگر پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرتیں تو یقیناً پورا ملک متحد ہو کر اس تقریب میں شریک ہوتا۔ اس میں تنازع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم کو اُن کے استقبال کیلئے کھڑا ہونا پڑ تا لیکن اس طرح ان کی شرکت بھی یقینی ہوتی۔آج اگر ملک کی صدر ہی جس تقریب میں موجود نہ ہوں،اس میں اپوزیشن جماعتیں موجود نہ ہوں یا اس کا بائیکاٹ کریں تو اسے  غلط کیوںکر سمجھا جا سکتا ہے؟
  منطق، اخلاقیات، عملی یا پھر سیاست... کسی بھی پہلو سے بات کریں تو ہر بنیاد پر نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح صدر جمہوریہ دروپدی مرمو ہی کو کرنا چاہئے تھا۔ ان کی موجودگی کے بغیر جمہوری تاریخ کا وہ اہم لمحہ غیر معمولی رہنے والا ہے۔ جمہوریت سے محبت کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ ’یوم سیاہ‘ کےطور پر نقش رہنے والا ہے۔ یہ حکومت کی حمایت اور اس کی مخالفت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ صحیح اور غلط کا مسئلہ ہے اور حق اور باطل کے ساتھ کھڑ ے ہونے کی بات ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK