Inquilab Logo Happiest Places to Work

بین مذہبی شادی کے واقعات اوران کا تدارک

Updated: April 28, 2023, 11:23 AM IST | Mumbai

لاکھوں مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکیوں کے ساتھ جانے کی بات کسی بھی طرح حقیقت کے مطابق نہیں ہے، اس کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بولنے اور لکھنے سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں اور سنگھ پریوار کے ارادوں کو تقویت ملتی ہے۔

Where the marriage of Muslim girls to non-Muslim boys comes to light, the marriage of non-Muslim girls to Muslim boys also comes to the fore.
جہاں مسلم لڑکیوں کی غیرمسلم لڑکوں سے شادی کے معاملات سامنے آتے ہیں وہیں غیرمسلم لڑکیوں کا مسلم لڑکوں سے نکاح کا معاملہ بھی منظرعام پر آتا ہے

سنگھ پریوار کے لوگوں کو ہمیشہ مسلم مخالف ایجنڈا چاہئے، اس کیلئے وہ موقع بہ موقع مختلف مسائل اٹھاتے رہتے ہیں۔ ادھر ان کے بعض قائدین ہندو لڑکوں کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لائیں؛ تاکہ ان کے ذریعہ ہندو نسل چلے۔ یہ ایک جذباتی بات ہے جو ہندو نوجوانوں میں گرمجوشی پیداکرتی ہوگی؛ اسلئے اس پر ’’جے شری رام‘‘کے نعرے بھی لگتے ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو بھی اس سے یقیناً ٹھیس پہنچتی ہے۔ یہی ان کا مقصد ہے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ واقعات دونوں طرح کے پیش آتے ہیں، یعنی مسلم لڑکوں کے ساتھ غیرمسلم لڑکیوں کے  نکاح کے بھی۔ ایسی صورتوں میں عام طورپر یہ لڑکیاں اسلام قبول کرلیتی ہیں، اورچونکہ مسلم سماج میں ذات پات کا تصور نہیں پایا جاتا ہے،  اس لئے وہ مسلم سماج کا حصہ بن جاتی ہیں، نہ لڑکیوں کو دشواری پیش آتی ہےاورنہ لڑکے کے خاندان کو۔یہ بھی ایک سچائی ہےکہ پیار ومحبت کے جال میں پھنس کر بعض مسلمان لڑکیاں بھی غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں، ایسے واقعات میں دو طرح کے نتائج سامنے آتے ہیں، کبھی تو وہ لڑکے خود مسلمانوں کے ماحول سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیتے ہیں؛ چنانچہ مسلم سماج میں ایسے بہت سے نومسلم داماد مل جائیں گے؛ لیکن بعض ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جن میں مسلمان لڑکی اپنا مذہب بھی تبدیل کرلیتی ہے، اورغیرمسلم سماج کا حصہ بن جاتی ہے، کبھی توان کا یہ رشتہ قائم رہتاہے اوربہت سی دفعہ علاحدگی، خودکشی اورموت پر ختم ہوتا ہےکیونکہ ہندو سماج میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنی ہی قوم کے دوسرے خاندانوں سےشادی گوارا نہیں کرتے۔  وہ اپنے گھر میں کسی مسلمان لڑکی کی آمد کو کیونکر قبول کرسکتے ہیں؟
 اس وقت اس مسئلہ پر کافی لکھا اور بولا جارہا ہے، لیکن اس سلسلہ میں دوباتیں قابل توجہ ہیں: اول:  یہ کہ مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کے واقعات میں کتنی سچائی ہےاورکتنا مبالغہ ہے؟ دوسرے یہ کہ جتنی سچائی ہے اس کے تدارک کے سلسلے میں ہماری کیاذمہ داریاں ہیں؟
 پہلے نکتہ کے سلسلے میں غورکیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اس میں حقیقت کو بہت بڑھاچڑھاکر پیش کیا جارہاہے۔ ایسی باتوں کا چونکہ مخاطب پر بڑااثر پڑتاہے، اس لئے بے تحقیق بات کہہ دی جاتی ہے، اورپھر اس بات کو بغیر تحقیق و تجزیہ کے آگے نقل کیا جاتاہے، جو تقریر وتحریر میں نمک مرچ کا کام کرتی ہے۔ اگرہم غورکریں تو جس پیمانے پر یعنی لاکھوں کی تعداد میں مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کی بات کہی جارہی ہے، یہ بالکل قابل فہم نہیں ہے۔ 
 ایک توغیرمسلموں کے یہاں شادی بیاہ کے معاملہ میں ذات پات کااتنا گہرا تصور ہے کہ اونچی ذات والے نیچی ذات کی لڑکی کو اور برہمن و راجپوت،  دلت طبقہ کی لڑکیوں کو کسی طور گوارانہیں کرتے، کیاعمومی طورپر یہ سماج مسلمان لڑکیوں کو بطورمنکوحہ گوارا کرسکتاہے؟
 دوسرے: مسلمانوں میں جو غریب اور مفلس طبقہ ہے،  وہی لالچ میں مبتلاہوکر غیرمسلم لڑکوں کے دام میں جاتاہے، اور لڑکیاں ان کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ طبقہ عام طورپر زیادہ جہیز وغیرہ نہیں دے سکتا، اسی مجبوری کی وجہ سے ان کی شادی میں دیر ہوتی ہے اوراس تاخیر کی وجہ سے وہ شکار کرلی جاتی ہیں۔ ہندوسماج میں جہیز کے لین دین کی رسم بہت گہری ہے، سماجی اور معاشرتی اعتبار سے  اس کو بُرا نہیں سمجھاجاتا،  اوریہ بات قانون میراث سے بھی جڑی ہوئی ہے، ہندو مذہب میں چونکہ عورتوں کو حق میراث میں کوئی حصہ نہیں ملتا، اور اگرچہ قانونی طور پر ۱۹۵۰ء کے بعد ان کو ترکہ میں حق دیاگیاہے  لیکن قدیم مذہبی روایت کی وجہ سے اس پر بہت کم عمل ہوپاتا ہے، خاص کر زرعی اراضی اور کاروبار میں توان کا کوئی حق ہی نہیں سمجھاجاتاہے، اس لئے داماد اپنا حق سمجھتاہے کہ سسرال والے اس کو ایک خطیر جہیز دیں۔ مسلمانوں میں اگرچہ برادران وطن سے متاثر ہوکر جہیز وغیرہ کا رواج پڑ گیاہے مگر ہر دیندار اورباشعور مسلمان اس کو بُراہی سمجھتا ہے؛  اسی لئے لین دین کی بات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بہت سے مسلمان اس رسم بد سے بچتے ہیں، دینی جماعتوں اور تحریکوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اسے باعث ننگ سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ جو حضرات محتاط ہیں، وہ توان تقریبات میں شریک بھی نہیں ہوتے  جن میں لین دین کے ساتھ شادی ہوتی ہے، ہزاروں جلسے اس برائی کی مذمت کیلئے منعقد ہوتے ہیں، اورعوام وخواص ایسی حرکتیں کرنے والوں پر لعن وطعن کرتے ہیں۔
 لہٰذا اس برائی میں مسلمان اور غیرمسلم ایک درجہ میں نہیں ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھئے تو غیرمسلم لڑکوں کو مسلمان لڑکیوں سے شادی رچانے میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ ایسا تو ہوسکتا ہے کہ ہندوتوا کی آڑ میں سلگ کر اکا دکا ہندو نوجوان مسلمان لڑکی سے اپنا رشتہ استوار کرلے، اورایسا ہوتاآتاہےکہ اسکول یا جائے ملازمت کی دوستی شادی میں تبدیل ہوجائے؛ لیکن عمومی طورپر غیرمسلم لڑکے مسلمان لڑکیوں کو اپنا نے لگیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
 تیسریبات یہ کہ خود غیرمسلم سماج میں غیرشادی شدہ لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ جو صورتحال مسلمانوں کے یہاں ہے، وہی ان کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غیرمسلم شہری اورتعلیم یافتہ آبادی میں کم بچے پیداکرنے کا رجحان کافی بڑھ گیاہے۔ مسلمان علماء جس طرح شرعی نقطۂ نظر سے اس کو منع کرتے ہیں، ان کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت کے وسیع تصور سے محروم ہیں، اورکثرت اولاد کو قبول کرنے کا اس سے گہرا تعلق ہے، چاہے ان کے بعض مقررین ہندو نوجوانوں کو زیادہ بچے پیداکرنے کی دعوت دیں لیکن غیرمسلم سماج عام طورپر اس جذباتی نعرہ کو قبول نہیں کرتا، وقتی طورپر نعرے لگادینا الگ بات ہے؛ لیکن نعروں کو عمل میں لانے کا تعلق عقیدہ و یقین سے ہے چنانچہ غور طلب ہے کہ جب ان کے سماج میں خود لڑکیوں کیلئے رشتے کی ضرورت ہے تو وہ کیوں اپنا  بوجھ بڑھا کر دوسرے سماج کابوجھ اٹھاناچاہیں گے؟
 چوتھے: لاکھوں مسلمان لڑکیوںکے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کی جوبات کہی جارہی ہے، گردوپیش کاماحول بھی اس کی تصدیق نہیں کرتا۔  اپنے اپنے خاندان میں دور تک دیکھ  جائیے، اپنے محلہ کا جائزہ لیجئے، اپنے گائوں پر نظر ڈالئے، شاید ہی اس طرح کا کوئی واقعہ ملے، بڑی بڑی آبادیوں اور شہروں میں اکا دکا واقعات ملتے ہیں، اگر کسی بڑے شہر میں مہینہ میں دس واقعات پیش آئیں تو سال میں ایک سوبیس واقعات ہوئے، لاکھوں کی آبادی میں اتنے واقعات کا پیش آنا بھی اگرچہ بہت تکلیف دہ ہے لیکن اس کو ہزاوں اور لاکھوں کی تعداد قراردینا حد درجہ مبالغہ کی بات ہے۔یہ تو ہوسکتاہے کہ اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہو مگر یہ غالب رجحان نہیں ہے۔ چونکہ لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان بڑھ رہاہے، بدقسمتی سے ہمارے یہاں جداگانہ  نظام تعلیم کے ادارے بہت کم ہیں ، مخلوط تعلیمی نظام کا غلبہ ہے اور پھر خواتین میں ملازمت کا رجحان بڑھاہے، اورغیرملکی کمپنیوں کے آنے کی وجہ سے اس کے مواقع بھی بڑھے ہیں،  اس لئے ایسے واقعات میں دونوں طرف سے اضافہ ہوا ہے، مسلم لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کے بھی اور غیرمسلم لڑکیوں کے مسلم  لڑکوں کی طرف آنے کےبھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ’’لوجہاد‘‘کے خلاف نعرے لگ رہے ہیں، اور پورے ملک میں اس کیلئے تحریک چلائی جارہی ہے؛ اس لئے اس کو بالکل یکطرفہ انداز سے پیش کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔
 سنگھ پریوار کے لوگ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مسلم آبادی اتنی بڑی ہے کہ اس کو نہ تو سمندر میں بہایا جا سکتا ہے نہ ہی کسی اور ملک میں بھیجا جاسکتاہے اس لئے وہ وقتاًفوقتاً نفرت انگیزی اور تشدد کی باتیں کرتے ہیں لہٰذا سمجھا جاتا ہے کہ ان کی تائید سے ہجومی قتل کے واقعات پیش آتے ہیں، پھر ایسے واقعات کو میڈیا پر دکھایاجاتاہے اوراس پر فخر کیاجاتاہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو خوفزدہ کرناہے۔ یہ جو مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کی بات بار بار کہی جارہی ہے، یہ بھی اسی قبیل سے ہے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں۔ ہم اس غیرتحقیق شدہ بات پر گرم تقریریںکرکے اورمبالغہ آمیز تحریریں لکھ کر نیز سوشل میڈیا پر پھیلا کر ان کے مقصد کو تقویت پہنچارہے ہیں اور اس طرح غیر شعوری طور پر خود اپنے لوگوں کو مایوسی کے غار میں دھکیل رہے ہیں۔  علماء اور قائدین کو لازماً اس پر توجہ دینی چاہئے۔
 پانچویں:کسی مسلمان لڑکی کا غیرمسلم لڑکے کے ساتھ چلاجانا الگ بات ہے اور مرتد ہوجانا الگ بات ہے۔ غیرمسلم لڑکے کے ساتھ چلا جانا یقیناً  بہت بڑاگناہ ہے، مگر ارتداد کا مطلب مسلمان ہونے یا ہوجانے کے بعد مذہب سے پھرنا ہے۔  مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کا، رسول اللہ ﷺ کے رسول اور آخری نبی ہونے کا، قرآن مجید کے کتاب اللہ ہونے کا اور آخرت کا انکار کرجائے، وہ بتوں کو خدایقین کرنے لگے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو اگر کچھ لڑکیاں جو غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں، وہ وقتی جذبات کے تحت اگرچہ اس غلطی کا ارتکاب کرلیتی ہیں، لیکن وہ مکمل طورپر اسلام سے برأت کا اظہار نہیں کرتیں، ان کے دل میں ایمان کی چنگاری دبی ہوتی ہے، خود میرے پاس بعض ایسے معاملات آئے کہ جب بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑے کو سمجھایا گیا تو انہوں  نے کہا کہ ہم نے اپنا دین نہیں بدلاہے، ہم دونوں  نے طے کیا ہے کہ ہم اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں گے، اپنے اپنے خاندان سے تعلق بھی باقی رکھیں گے؛ لیکن ازدواجی رشتہ میں بندھے رہیں گے، ان کی یہ بات یقیناً صدفیصد ناقابل قبول ہے، شریعت میں قطعاً اس بات کی اجازت نہیں ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے مسلمان لڑکے یا لڑکی کو گنہگار اورفاسق وفاجر توکہہ سکتے ہیں؛ مگر ان پر مرتد ہونے کا حکم نہیں لگاسکتے۔
 حاصل یہ ہے کہ لاکھوں مسلمان لڑکیوں کے غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ جانے کی بات کسی بھی طرح قرین قیاس نہیں ہے، اس کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بولنے اور لکھنے سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں اور سنگھ پریوار کے ارادوں کو تقویت ملتی ہے اس لئےنہ ایسی باتیں بار بار کہنی چاہئیں اور نہ ایسی باتوں کو پھیلانا چاہئے، البتہ اگر ایسے  دوچار واقعات بھی پیش آئیں تو وہ بھی بہت تکلیف دہ ہیں، اور وہ اس لائق نہیںہیں کہ انہیں نظرانداز کیا جائے۔ آئندہ جمعہ کو ملاحظہ کیجئے اس سلسلے کی بعض تجاویز، ان شاء اللہ۔  (جاری) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK