Inquilab Logo Happiest Places to Work

ترنگے کی داستان کو سمجھنے کیلئے اس مٹی سے اٹوٹ رشتہ ضروری ہے

Updated: August 15, 2020, 3:12 AM IST | Juveriya Qazi | Mumbai

میں کرۂ ارض کا ایک حصہ، جو ہندوستان کہلاتا ہوں ، زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا لیکن میرے وہ بندے جن کے دل آزاد تھے انہوں نے میرے ہاتھوں کو زنجیروں سے آزاد کر دیا لیکن وہ تمہارے دلوں پر چڑھ گئیں اور اب میرے اپنے ہی اپنوں کو غلام بنا رہے ہیں ، کیا کئی صدیوں پر محیط ویر گاتھا صرف کہانی تھی؟

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 میں کرۂ ارض کا ایک حصہ، جو ہندوستان کہلاتا ہوں ، زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا لیکن میرے وہ بندے جن کے دل آزاد تھے انہوں نے میرے ہاتھوں کو زنجیروں سے آزاد کر دیا لیکن وہ تمہارے دلوں پر چڑھ گئیں اور اب میرے اپنے ہی اپنوں کو غلام بنا رہے ہیں ، کیا کئی صدیوں پر محیط ویر گاتھا صرف کہانی تھی؟ آزادی کا ۷۴؍ واں جشن مناتے ہوئے بھی ملے سُر میرا تمہارا ،ہمارا سُر نہیں بن پایا! کبھی ہم نے سوچا! میں ایک ہندوستانی ہوں اس بات کا علم مجھے پیدائش کے سر ٹیفکیٹ سے نہیں ہوا بلکہ یہ تو میرا اس مٹی سے رشتہ ہے جو بار بار کچھ کہتا ہے کہ اسکول میں داخل ہونے پر میری ملاقات اپنے وطن سے ہوئی، تب طبیعت نے بغیر ہچکچاہٹ کے اسے قبول کر لیا۔ انجانے میں ایک احساس پورے وجود کو سر شار کرتا رہا کہ جن گن من کے معنی جانے بنا اسے گاتے ہوئے، سارے جہاں سے اچھا کے سر میں اپنے سر ملاتے ہوئے، یومِ آزادی پر کاغذ کا ترنگا ہاتھ میں لئے اپنی ماں سے سفید کرتا ایک دن پہلے استری کرواتے ہوئے، اپنی بابا کی سائیکل پر بیٹھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے، ٹی وی پر پریڈ دیکھ کر فوجی بننے کا خواب دیکھتے ہوئے، ایسے ہی کسی موقع پر اسکول میں آزادی پر لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ پھٹ جانے پر ہمجولی سے جھگڑتے ہوئے، قومی ٹیم کے عالمی کپ کی جیت پر چک دے انڈیا سن کر فخر محسوس کرتے ہوئے، رنگ دے بسنتی اور انقلاب زندہ باد کو تاریخ کی کتابوں سے باہر خود کے اندر تلاش کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ یہ کرۂ ارض کا ایک حصہ ہی نہیں پورا ہندوستان ہے جس کی تصویر میں ہر شہری کا تیا گ اور دعا کا رنگ شامل ہے۔
  اس کے باوجود اپنے وطن میں بار بار آزادی کا دم گھٹتے ہوئے دیکھ کر یہ سوال من میں ابھرتا ہے کیا زعفرانی اور سبز کے ٹکراؤ میں ہم سفید کو بچا سکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ ہمارا پڑوسی بغیر کسی ڈر کے اپنے گھر میں سو سکتا ہے؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ بچپن والے بھارت سے پھر مل سکتے ہیں ہم؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ ویژن ٹوینٹی ٹوینٹی کے آکار میں کلام کے سپنے کو ساکار کرسکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ مدر ٹریسا کی خدمتِ خلق کو خراجِ تحسین پیش کر سکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کی دوستی کو پھر سے زندہ کر سکتےہیں ؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ ساوتری بائی پھُلے اور فاطمہ کے سماجی شعور کو پروان چڑھا سکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم ا ور سگنل پر سرخ بتی پر رک کر سبز کا انتظار کر سکتے ہیں ؟ اگر ہاں ! تو آزاد ہیں ہم۔ 
 دنیا کی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں آیا جس میں انسان کو شکست ہوئی ہو۔ افراد کو شکست ہوتی ہے اور ہوگی لیکن انسان ناقابلِ شکست ہے کیونکہ وہ جمالیاتی حس کا ادراک رکھتا ہے، جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھتا ہے، تخلیقی عمل اور جمالیات کے اصول کے ساتھ دلِ بینا اور وسعت نظر رکھتا ہے جو اسے رنگ و خوشبو، حسن وخوبی، خلوص و مروت اور ایثار و انکسار کا نمونہ بنا دیتا ہے اس کے بعد قطرے میں دریا اور جزو میں کل کا منظر دکھائی دیتا ہے اور وہ اس پیڑ کی طرح ہو جاتا ہے جس کی جڑیں زمین میں پیوست ہوں اس کی کٹی ہوئی شاخوں سے بھی کونپلیں پھوٹتی رہیں گی اور اپنے سائے سے ٹھنڈک پروستی رہیں گی تب ہم یہ کہہ سکیں گے شہیدوں کی روحوں سے ہاں ! ہم آزاد ہیں ۔
 جی ہاں اس آزادی کا پرچم ترنگا بھی ایک استعارہ ہے کہ سیاہی کے آغوش میں نور ہے، اس میں ٹیپو کی للکار ہے، آزاد کی گفتار، بھگت کے خون کا ابال، آزادی کے متوالوں کا جلال، محمد علی کے ہمہمے، اقبال اور ٹیگور کے زمزمے۔ چکی کی مشقت، شاستری کی مروت، اشفاق اللہ اور بسمل کی دوستی کا بسنتی رنگ، لکشمی بائی کی تلوار کی جھنکار، تلک کی چنگھاڑ ، گاندھی کا تیاگ سب کچھ گھلنے لگتا ہے اور ترنگے میں ڈھل کر ہم سے پوچھتا ہے۔ـــ’’کیا ہم آزاد ہیں ؟‘‘ در اصل ہم محسوس کرنے کی حس سے محروم ہو رہے ہیں ، فطرت انسان کی دشمن نہیں دوست ہے مگر وہ کسی اور قانون یا تکنیک کی پابند نہیں ہے، اس کا اپنا ایک مخصوص نظام عمل ہے۔ یہ بھی تو آزادی کا ایک مفہوم ہی ہے۔ ہمارا پرچم آفاقی رنگوں کے امتزاج سے خوشنما ہے، اس میں پس منظر اور پیش منظر آپس میں گڈمڈ ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن آزادی کے جس خیال کا مرکز ترنگا کو بنا کر سفر کا آغاز ہوا تھا وہاں اس پرچم کا نشان حیرت سے لرزاں ہے، اس کے رنگ کیفیت کا خاموش استعارہ ہیں کہ یہ تو صبح بہار کے رنگ تھے۔
 اس سفید رنگ کی بے رنگی میں قوسِ قزح ہے اور یہ امن کا نشان ہے شاید اس کے لئے یہ رنگ روح کا نقرئی پیرہن ہونے کے ساتھ دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے یا پھر اس جھیل کی طرح جگمگا تا ہے جس میں نیلے اور سفید پھول کھلتے ہیں ۔ یہ رنگ اماوس کی سیاہی میں زندگی کی روشنی، دریا کی روانی، صبح کی شگفتگی، شبنم کی نمی، جگنو کی چمک سب کچھ ہے ۔اس کا نیلا رنگ، ہلکے سروں میں بجتی بانسری اور لہروں کا شور، بادلوں کے بجر ے اور بوندوں کا جلترنگ جو حرکت کا عکاس ہے امید اور یقین کی کشتی کے موسموں کا ایک آلاپ، ایک رنگ شفق کا بھی ہے جو ڈھلتی شاموں میں ڈھارس بندھاتا ہے کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، یہ رنگ دیپک کا بھی، شعلہـ گل کی گرمی اور روشنی کا خوبصورت امتراج، سنہری دھوپ کا اشارہ حوصلے کا، زندگی کے کارزار میں کچھ کر گزرنے کا، جہاں آس پاس دماغوں میں روشنی، آنکھوں میں شناسائی، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور دلوں میں مروت آجاتی ہے ۔
 پھر جو اس سبزہ کی فرحت ہے زمین پر بچھے قالین کی طرح، باغ کی شادابی، خوشبو کی لپٹ، نسیم کے جھونکے، بہاروں کی رنگینی کے ساتھ کونپلوں کا پھوٹنافصلِ گل کا پیغامبرہے جہاں آس پاس صرف دھوپ نہیں برستی اورزمین صرف بھوک نہیں اگاتی، پہاڑ سبزے سے محروم، درخت پھولوں سے خالی اور کنویں پیاسے نہیں رہتے۔
 یہ رنگ زندگی کے ہیں جنہیں جینے کے لئے مرنا پڑتا ہے۔ یہ داستان جو اس ترنگے میں لپٹی ہوئی ہے اسے سمجھنے کے لئے اس مٹی سے اٹوٹ رشتہ ضروری ہے۔ احساس کا، شعور کا، فکر کا، تجربہ کا، جیسے زیتون کی جڑیں سنگِ مرمر میں اترجاتی ہیں ۔ اس ترنگے میں دھرتی امبر کے ساتھ بہنے والا سمندر بھی ہے۔ چاندنی کے سحر کے ساتھ سورج کی تمازت بھی ہے، یہ صرف کپڑے کا ٹکڑا نہیں پورا ملک ہے جس میں ہر شہری کی دعا اور تیاگ کا اثر ہے۔ جسے یہ صرف رنگ دکھائی دیتے ہیں وہ بھی بانٹنے والے! اس کی آنکھیں یقیناً بصیرت سے خالی ہیں ، وہ یہ نہیں جانتا کہ ہماری تہذیب اخفا کی ہے اس لئے اس میں رمز، کنا یہ،تشبیہہ اور استعارہ آئیں گے، وہ یہ نہیں جانتے کہ سامنے کی بات آنکھ دیکھتی ہے اور آنکھ کے پیچھے کی بات احساس دیکھتا ہے اور اسے گواہی کی ضرورت نہیں صرف قلندر کی آنکھ اور صوفی کا دل چاہئے۔ جہاں مسافر شکستہ پا ہونے کے باوجود شکستہ دل نہیں ہے۔ جب چنری اور پگڑی اس رنگ میں رنگ جائیں تو پھر انسان مٹی میں مٹی ہوجاتا ہے جس کے پاس گننے کو کچھ نہیں ہوتالیکن دینے کے لئے بے حساب ہے۔
مضمون نگار مومن گرلز ہائی اسکول بھیونڈی کی ہیڈ مسٹریس ہیں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK