Inquilab Logo Happiest Places to Work

انڈیا اتحادکی میٹنگ: انتخابی صف بندی بالکل واضح ہوگئی ہے

Updated: September 03, 2023, 2:51 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

ممبئی میں منعقدہ تیسری میٹنگ میں اہم کمیٹیوں کے قیام ، سیٹوں کی تقسیم پر گفتگو کے آغاز اور اتحاد کے پیغام نے برسراقتدار طبقےمیں ہنگامہ برپا کردیا ہے۔

After the third meeting of the `India` alliance, there is hope among the people that they will fight against the BJP in the next Lok Sabha. Photo. INN
’انڈیا‘اتحاد کی تیسری میٹنگ کے بعد عوام میں اس طرح کی امید پیداہوگئی ہےکہ آئندہ لوک سبھا میں یہ سب مل کر ہی بی جے پی کا مقابلہ کریں گے۔ تصویر:آئی این این

انڈیا اتحاد جس کی پٹنہ اور بنگلور کے بعد ممبئی میں تیسری میٹنگ ہوئی،دور رس نتائج کی حامل رہی ۔ اس اتحاد کے تعلق سے برسراقتدار طبقے نے جتنی بھی افواہیں پھیلائی ممبئی میں منعقدہ اس میٹنگ نے ان تمام باتوں اور افواہوں کی نفی کردی۔ یہ محاذ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا جارہا ہے اوراس کے ثبوت ہمیں ممبئی میں دیکھنے کو ملے جب ۲۸؍ پارٹیوں کے نمائندوں نے اس میں شرکت جبکہ ہماری اطلاع کے مطابق مزید ۳؍ سے ۴؍ پارٹیاں اس اتحاد میں شامل ہونے کے لئے پرتول رہی ہیں ۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جو اس اتحاد کو قائم کرنے اور اسے منصہ شہود پر لانے میں پیش پیش رہے ہیں ، نے بالکل درست تبصرہ کیا کہ جیسے جیسے دن گزریں گے انڈیا اتحاد میں پارٹیوں کی شمولیت بڑھتی جائے گی۔ ممبئی کی میٹنگ اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اس میں سیٹوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ آپسی تال میل کو بہتر بنانے اور مل کر الیکشن لڑنے پر مکمل اتفاق رائے قائم ہوا۔ اس سے قبل تک دبے لفظوں میں ہی سہی اختلافی آوازیں اٹھ رہی تھیں لیکن اس میٹنگ نے سبھی پارٹیوں کو اتحاد کے دھاگے میں پرونے کا کام بخوبی کردیا ہے۔ 
 ملک اس وقت ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک راستہ تباہی و بربادی، خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ سب کچھ داؤ پر لگا ہے جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں اور ایک گلدستے جیسے ہندستان کا خواب دیکھا تھا۔ زمانے کے سرد و گرم جھیلتے ہوئے ہم اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جانب رواں دواں تھے لیکن ۲۰۱۴ء کے بعد سے ملک کی فضا میں اس قدر زہر گھول دیا گیا کہ محسوس ہو رہا تھا کہ اسے ختم کرنے میں بھی برسوں لگ جائیں گے لیکن راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کرکے اور اسے کامیاب بناکر حالات کو یکسر بدل دیا۔ اب محسوس ہو رہا ہے کہ نفرت کی آندھی کا زور ٹوٹ رہا ہے اور اس میں انڈیا اتحاد کے قیام نے بھی نہایت مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اس اتحاد کی پہلی میٹنگ کے وقت ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو ملک سے فرقہ پرستی کے اقتدار کا سورج غروب ہو جائے گا۔دوسری میٹنگ اور پھر اب تیسری میٹنگ نے تو برسراقتدار طبقے تک یہ پیغام واضح طور پر پہنچادیا ہے کہ اس کے دن اب گنتی کے رہ گئے ہیں ۔ یہ بات اس لئے بھی ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کیوں کہ انڈیا اتحاد مقابلے کے لئے جس حکمت عملی کو اپنارہا ہے یعنی این ڈی اے کے ایک امیدوار کے مقابلے انڈیا کا ایک ہی امیدوار ، اس سے بازی ابھی سے انڈیا کے حق میں نظر آرہی ہے۔ 
 راہل گاندھی نے میٹنگ کے بعد یہ بات بالکل درست کہی کہ انڈیا میں شامل پارٹیاں ملک کی آدھی سے بھی زیادہ آبادی کی نمائندہ ہیں یعنی کم از کم ۶۰؍ فیصد آبادی کی نمائندگی کرنے والی پارٹیاں اس اتحاد میں شامل ہیں ۔ ایسے میں بی جے پی کی شکست تقریباً طے ہے کیوں کہ اس کے پاس ۴۰؍ فیصد بھی نہیں بلکہ ۳۱؍ سے ۳۳؍ فیصد کے درمیان ووٹ ہیں ۔مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوان تو الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے بل بوتے پر کہہ چکے ہیں کہ اب بی جے پی کو ڈوبنے سے کوئی بھی نہیں بچاسکتا کیوں کہ گزشتہ الیکشن میں انڈیا محاذ میں شامل پارٹیوں کو این ڈی اے سے کہیں زیادہ ووٹ ملے تھے۔ 
 جہاں تک تیسری میٹنگ کی بات ہے تو اس میں کئی اہم پیش رفت ہوئی ہیں جیسے کہ رابطہ کمیٹیوں کا قیام ، لوگو کے لئے عوام سے رائے لینے کی کوشش، سیٹوں کی تقسیم کے لئے ابھی سے گفتگو کے مراحل شروع کرنے کا فیصلہ اور ایسی ہی کئی اہم پیش رفتیں جن پر غور کرنے کے بعد محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سب کچھ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں یہی پارٹیاں میدان میں تھیں لیکن انہوں نے متحد ہوکر الیکشن نہیں لڑا تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کو ایک مرتبہ پھر موقع مل گیا تھا ۔ اب وہ غلطی دہرانے کی کوشش نہیں ہو رہی ہے بلکہ اتحاد کا بھرپور مظاہرہ ہو رہا ہے۔ اس میٹنگ میں جیسا کہ توقع تھی کنو ینر کے نام کا اعلان کیا جانا تھا لیکن ممکنہ طور پر صرف اسی بات پر اتفاق نہیں ہوا ہو گا ورنہ جتنے اعلانات کئے گئے ان کے تعلق سے یہ محسوس ہو رہا ہےکہ یہ کام درپردہ کافی عرصے سے جاری تھا اور جب اتفاق رائے قائم ہو گیا تو اس کا اعلان کردیا گیا ۔ پٹنہ کی میٹنگ اور پھر بنگلور کی میٹنگ بھی اس لحاظ سے کافی اہم تھی لیکن ممبئی کا اجلاس اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے کیوں کہ سبھی کو یہ سن گن لگ گئی ہے کہ ملک میں الیکشن وقت سے پہلے ہوسکتے ہیں ۔ امکان ہے کہ ۵؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ پارلیمانی انتخابات بھی منعقد کرلئے جائیں ۔اسی لئے ممبئی کی میٹنگ میں تمام اقدامات کو’ فاسٹ فارورڈ ‘ کردیا گیا ۔ متعدد کمیٹیاں قائم کرلی گئیں ، انتخابی مہم اور سیٹوں کے بٹوارے پر گفتگو کا آغاز ہو گیا ہے لیکن اس کے تعلق سے فی الحال میڈیا کو نہیں بتایا گیا۔ اگر سیٹوں کی تقسیم کے سلسلے میں اتفاق رائے قائم ہو جاتا ہے تو بی جے پی کو بے دخل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا کیوں کہ ماضی میں بھی یہی تجربہ کامیاب رہ چکا ہے ۔ یہ حقیقت سبھی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی بہت کم اپنے بل بوتے پر الیکشن جیتی ہے ، اسے زیادہ تر فائدہ سیکولر پارٹیوں کا انتشار پہنچاتا ہے۔ ۲۰۱۴ء کی بات اگر کی جائے تو بی جے پی نے بھلے ہی اکثریت حاصل کر لی تھی لیکن اسے حاصل ہونے والے ووٹ اپوزیشن کے مجموعی ووٹوں سے کافی کم تھے۔ 
 جیسا کہ ہم نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ اپوزیشن کے پاس انتخابی بیانیہ طے کرنے یہی موقع ہے اور انڈیا اتحاد کی میٹنگ وہی بیانیہ طے کررہی ہے۔ اس کا اثرحکمراں محاذ کے لیڈران کے بیانات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اس پر جو تنقیدیں کررہے ہیں وہ نہایت کھوکھلی اور حقائق سے پرے ہیں ۔سابق وزیر روی شنکر پرساد کے بیان کو ہی لے لیجئے جس میں انہوں نےاپوزیشن اتحاد کو’ گھمنڈیا ‘کہا لیکن کوئی واجب تنقید نہیں کرسکے۔ اس کے بعد انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس میٹنگ میں کسانوں کے مسائل ، خواتین کے مسائل اور غریبوں کی ترقی کے تعلق سے کوئی روڈ میپ نہیں طے کیا گیا۔ اس پر کانگریس کے ترجمانوں نے بعد میں ان سے یہ سوال کرلیا کہ مودی سرکار کے دعوے کے مطابق تو ملک میں کسانوں کی آمدنی دگنی ہو گئی ہے ، خواتین بالکل محفوظ ہیں اور غریب ایک عرصہ قبل امیر ہو چکے ہیں تو پھر اس پر گفتگو کی کیا ضرورت ہے ؟ اس جواب پر ہمارا خیال ہے کہ روی شنکر پرساد بغلیں جھانکنے لگے ہوں گے ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK