Inquilab Logo

’انڈیا‘ اور ’این ڈی اے‘: مسائل دونوں کے ساتھ ہیں

Updated: September 08, 2023, 1:03 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

’انڈیا‘ کے وجود میں آنے کے بعد حکمراں محاذ میں خوف نظر آرہا ہے۔ اب یہ طے ہے کہ مقابلہ ہوگا چاہے اس مقابلے کا جو بھی نتیجہ برآمد ہو۔

"India" has passed a resolution in the Mumbai meeting. Photo:INN
ممبئی اجلاس میں ’انڈیا‘ نے ایک قرار داد یہ پاس کی ہے۔تصویر: آئی این این

نئے سیاسی اتحاد ’انڈیا‘ میں  ۲۸؍ پارٹیاں  شامل ہیں  لیکن اس اتحاد کے وجود میں  آنے کے بعد جس طرح یہ سوچنا صحیح نہیں  ہوگا کہ حکمراں  اتحاد این ڈی اے کی طاقت ختم ہوگئی کیونکہ حکمراں  اتحاد کے ساتھ اب بھی کئی پارٹیاں  ہیں ، ایک بہت مضبوط تنظیم اور دوربیں  نگاہیں  ہیں ، کارپوریٹ سیکٹر، میڈیا، غیر ملکوں  میں  مقیم ہندوستانی ہیں ۔ جذباتی نعرے اور پھر وائی ایس آر اور بیجو جنتا دل جیسی پارٹیاں  ہیں  جو غیر جانبدار ہونے کا نعرہ لگانے کے باوجود ہمیشہ حکمراں  محاذ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں  یا بی ایس پی جیسی جماعتیں  ہیں  جن کے بارے میں  یہ پیش گوئی نہیں  کی جاسکتی کہ وہ کب کیا رخ اختیار کریں  گی اسی طرح یہ سوچنا بھی غلط ہوگا کہ انڈیا نامی اتحاد کی تشکیل کا ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر کوئی اثر ہی نہیں  پڑے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ’انڈیا‘ وہ واحد سیاسی اتحاد ہے جس کے وجود میں  آنے کے بعد حکمراں  محاذ اور اس کے قائدین میں  گھبراہٹ اور ایک طرح کے خوف کے آثار صاف دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اب یہ طے ہے کہ مقابلہ ہوگا چاہے اس مقابلے کا جو بھی نتیجہ برآمد ہو۔ ’انڈیا‘ کے وجود میں  آنے سے پہلے تو محسوس ہوتا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں  اپنی حکومت ہی نہیں  اپنی تنظیمی طاقت بھی کھو دیں  گی۔ سب دیکھ چکے تھے کہ کیسے کیسے کانگریسی لیڈران بی جے پی کے سیلاب میں  بہہ چکے تھے، اس کا وجود بھی بکھرتا جا رہا تھا بعد میں  شیوسینا اور این سی پی کے بھی دو حصے ہوئے مگر اب صورتحال بدلتی جا رہی ہے۔
 ممبئی اجلاس میں  ’انڈیا‘ نے ایک قرار داد یہ پاس کی ہے کہ جہاں  تک ممکن ہوگا آئندہ لوک سبھا الیکشن ساتھ مل کر لڑیں  گے۔ قرار داد میں  ریاستی اسمبلیوں  کے انتخابات کے بارے میں  کوئی بات نہیں  کہی گئی ہے اور لوگ سبھا کے لئے متحدہ امیدوار کھڑا کرنے کی طرف اشارہ کیا بھی گیا ہے تو یہ کہتے ہوئے کہ ’’جہاں  تک ممکن ہوگا‘‘ یہ جملہ یہ تاثر دینے یا اعتراف کرنے کے سوا کچھ نہیں  ہے کہ کسی امیدوار کے نام پر اتفاق بہت مشکل کام ہے اور اگر یہ مشکل کام بالفرض کر بھی لیا گیا تو یہ ضروری نہیں  کہ متحدہ اور متفقہ امیدوار کے مقابلے میں  کوئی پارٹی اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے۔ دوسری قرار داد یہ ہے کہ ’انڈیا‘ میں  شامل سیاسی پارٹیاں  جلد از جلد عوامی جلسے جلوس کا سلسلہ شروع کر دیں  گی۔ اس فیصلے سے جہاں  یہ امید کی جاسکتی ہے کہ رائے عامہ کو اپوزیشن کے حق میں  ہموار کرنے میں  عوامی جلسے جلوس معاون ثابت ہوں  گے وہیں  ایسے امکانات اور اندیشوں  سے بھی صرف نظر نہیں  کیا جاسکتا کہ جلسے جلوس کی قیادت، انتظامات اور مقررین کے انتخابات کے سبب نئے اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ ہندوستانی جمہوریت میں  جہاں  کئی خوبیاں  ہیں  وہیں  ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ یہاں  لوگوں  کی خوبیوں  کو نہیں  خرابیوں  کو دیکھا اور اچھالا جاتا ہے۔ شبراتی، جمعراتی، خیراتی کا بھی یہ حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ باکردار و باعمل اشخاص کو بھی گنہگار ثابت کرکے اپنے لئے جگہ بنائے۔ اسی طرح میڈیا اور اطلاعات، نشریات کے سلسلے میں  حکمت عملی تیار کرنے اور عمل میں  لانے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ بھی سوالیہ نشانوں  میں  گھری ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی صحافی سیاسی تجزیہ نگار یا خبرنویس جب ادھر کا یا ادھر کا ہو کر رہ جاتا ہے اور اس میں  غیر جانبداری کا عنصر نمک خواری کے احساس تلے دب جاتا ہے تو وہ مفید کے بجائے مضر ثابت ہونے لگتا ہے۔ اسی لئے انقلاب کے سابق مدیر اور مبصر و مترجم ظ انصاری کہا کرتے تھے کہ صحافی کو تھوڑا سا نمک حرام ہونا چاہئے، یہ نہیں  کہ جو کسی برے وقت میں  امداد کر دے یا تھوڑا عیش پہنچا دے بس اسی کا ہو کر رہ جائے۔ سردست یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ’انڈیا‘ نے تین اہم کمیٹیاں  تشکیل دی ہیں  اس خوش فہمی کا اظہار بھی برا نہیں  کہ ان تینوں  کمیٹیوں  کی باگ دوڑ اچھے لوگوں  کے ہاتھوں  میں  سونپی گئی ہے مگر یہ تو بعد میں  ہی کہا جاسکتا ہے کہ جن کو اچھا ہاتھ سمجھا گیا تھا وہ اچھے ہاتھ ثابت ہوئے ہیں  یا نہیں ؟ خبر یہ تھی کہ ممبئی اجلاس میں  اتحاد کا ’لوگو‘ جاری کیا جائے گا اور کنوینر کا نام بھی طے ہوگا مگر یہ دونوں  کام نہیں  ہوئے۔ ایسا نہ ہونا خلاف توقع نہیں  ہے الگ الگ ذہن کی پارٹیوں ، ایجنڈوں  اور سوچ کے ساتھ اتحاد کا خواب دیکھنے والوں  میں  اختلاف ہوسکتا تھا جو ہوا، مگر جو کوآرڈی نیشن کمیٹی تیار کی گئی ہے اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آئندہ رونما ہونے والے اختلافات کو حل کر لے گی یا جن مسائل پر اتفاق نہیں  ہوا ان پر اتفاق کر لیا جائے گا۔ ’لوگو‘ اور کنوینر کے نام پر اتفاق ہوچکا ہے البتہ کسی مصلحت کے تحت اعلان سے گریز کیا گیا ہے یہ کوئی بری بات نہیں  ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اختلاف کے سبب ایسا ہوا ہے۔ جہاں  تک ایک کے خلاف ایک امیدوار کے نام پر اتفاق رائے کا سوال ہے یہ یقیناً مشکل ہے خاص طور پر کیرالا اور مغربی بنگال میں  جہاں  بایاں  محاذ بہت مضبوط اور کانگریس و ترنمل کانگریس کے مقابل ہے۔ مگر خود حکمراں  محاذ این ڈی اے میں  شامل پارٹیوں  کے متفقہ امیدوار کا فیصلہ بھی آسان نہیں  ہے۔ مہاراشٹر میں  شیوسینااور این سی پی کے ایک ایک دھرے دونوں  طرف ہیں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سب کے عزائم بلند ہیں ۔ یعنی سیٹوں  کی تقسیم کا مسئلہ صرف انڈیا کے ساتھ نہیں  ہے این ڈی اے بھی اس مسئلہ سے جوجھ رہی ہے۔
 حکمراں  جماعت یا حکومت نے جس طرح پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اجلاس کا ایجنڈا طے نہیں  ہوا ہے مگر اجلاس کی تاریخ طے کر دی گئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ اجلاس موجودہ پارلیمنٹ کا آخری اجلاس ہوگا اور ممکن ہے خواتین کی نمائندگی کا مسودہ قانون نیز مشترکہ قانون کا مسودہ بھی اسی اجلاس میں  پیش کر دیا جائے۔ کیا یہ سب گھبراہٹ کے شواہد نہیں  ہیں ؟ دونوں  سیاسی اتحاد کو ان لوگوں  سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جنہوں  نے سیاسی اتحاد کا ٹریڈ مارک بننے کے لئے ایک خاص وضع قطع بنائی ہے اور اونچی ٹوپیاں  خریدی ہیں ۔ ہر شخص اور ہر جماعت کو حق ہے کہ وہ چاہے جس سیاسی پارٹی اور اتحاد کو ووٹ دے مگر اس کا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ جس کو ووٹ دے رہا ہے اس اتحاد یا پارٹی میں  اس کی کیا حیثیت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK