Inquilab Logo

دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے

Updated: November 23, 2022, 1:48 PM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

گلوان کو پس پشت رکھ کر اگر مودی جی نے بالی میں جن پنگ کے سامنے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اس کی وجہ ان کی حقیقت پسندی اور مصلحت کوشی ہے۔ مودی جی کو علم ہے کہ انہوں نے اگر چین سے ٹکرانے کا دوسرا آپشن اپنایا تو نقصان بھی بڑا ہو گا اور رسوائی اور جگ ہنسائی بھی بہت ہوگی۔

Narendea Modi and Xi Jinping. Picture:INN
مودی جی اور جن پنگ۔ تصویر :آئی این این

 موسم سرما کی آمد کے ساتھ جب ایل اے سی پر برف کی دبیزتہیں جمنے لگی ہیں ایسے وقت میں انڈونیشیا کے ساحلی شہربالی میں برف پگھلنے کے آثار نظر آئے۔جی ۔۲۰؍ کے سربراہی اجلاس کے موقع پرانڈونیشیا کے وزیر اعظم کے ڈنر کے دوران جب وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں نے مسکراکر مصافحہ کیا اور چند منٹوں تک گفتگو بھی کی۔ حالانکہ مودی جی اور جن پنگ کی پہلے متعددملاقاتیں اور مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن جون ۲۰۲۰ء میں لداخ کے گلوان گھاٹی میں چینی اور بھارتی افواج کی خونی جھڑپوں کے بعد سے دونوں کی بات چیت بند تھی۔  پچھلے آٹھ برسوں میں قومی میڈیا’’ مودی فین کلب‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے اس لئے’’ دشمن‘‘ سے ہاتھ ملانے پر نیوز اینکروں نے مودی جی سے کوئی سوال نہیں کیا۔ لیکن سوشل میڈیا پرکانگریس کے چھوٹے  لیڈروں اور کچھ سیکولر صحافیوں نے تنقید کی۔ کسی کو شکایت تھی کہ گلوان میں بیس جانبازوں کے خون سے رنگے ہاتھوں کو مودی جی نے اپنے ہاتھوں میں کیوں لیاتو کوئی پوچھ رہا تھا کہ انہوں نے شی جن پنگ کو لال آنکھوں کے بجائے اپنی لال شرٹ کیوں دکھائی۔  عوام کی نفسیات سے بخوبی واقف مودی جی نے ہر سوال پر وہی مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرلی جو انہوں نے نوٹ بندی کی مکمل ناکامی پر اٹھتے سوالوں پر کرلی تھی۔مودی جی نے تو گلوان سانحے کے بعد چین کا نام تک لینا چھوڑدیا۔  
 چین تنازع ایسا ایشو ہے کہ جس پر سوال تو کیا بات کرنے سے بھی لوگ کتراتے ہیں۔ مودی بھکت ۱۹۶۲ء  میں چین سے شکست کے لئے سوشل میڈیا پر صبح شام نہرو جی کو کوستے ہیں۔ لیکن چین نے حال میں گلوان میں جو گھس پیٹھ کی،ہاٹ اسپرنگ اور دیپسانگ میں ہماری زمین ہڑپ لی اور اروناچل پردیش میں گاؤں بسادیئے ان باتوں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی گلا پھاڑ پھاڑ کر چلارہے ہیں کہ مودی چین پر ’’ سچائی چھپارہے ہیں ‘‘ لیکن سچائی جاننے میں کسی کو دلچسپی ہی نہیں ہے۔
 دو ڈھائی برسوں میں بھارت اور چین کے فوجی افسروں کے درمیان سرحدی تنازع پر سولہ دور کے مذاکرات ہو چکے ہیں جن کے بعد گلوان،گوگرا،ہاٹ اسپرنگ اور پینگانگ جھیل سے دونوں ممالک نے ایک طے شدہ مقام تک اپنی اپنی افواج ہٹالیں تاکہ بفر زون قائم کئے جاسکیں جہاں دونوں میں سے کوئی بھی پٹرولنگ نہیں کرے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ چین ہندوستانی زمین کے اندر آکر بیٹھ گیا ہے اور بھارت اپنے کچھ اور علاقوں میں پٹرولنگ کے حق سے دستبردار ہوگیا ہے۔چین ایل اے سی پر اپریل ۲۰۲۰ء کی صورتحال بحال کرنے پر راضی نہیں ہے اور ہندوستان نے اب اس سے یہ مطالبہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ چین دیپسانگ سے فوج واپس لے جانے میں قطعاً راضی نہیں ہے بلکہ وہ دیپسانگ میں ہندوستانی علاقوں میں نئی سڑکیں، ہیلی پیڈز اور فوجی کیمپ تعمیر کررہا ہے۔ سردیوں  میںدونوں ممالک اپنی اپنی فوج کی تعداد کم کرلیتے تھے لیکن اس وقت دونوں  کے ۵۰؍ سے ۶۰؍ہزار فوجی تعینات ہیں۔ حال ہی میں شی جن پنگ نے فوج کو جنگ کی تیاری کے لئے مستعد رہنے کی ہدایت دی ہے۔سرحد پر کشیدگی برقرار ہے۔ مستقبل میں اگر بھارت چین جنگ چھڑی تو وہ تباہ کن ثابت ہوگی۔ عسکری ماہر پروین ساہنی نے اپنی حالیہ کتاب The Last War میں یہ وارننگ دی ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو ہندوستان محض دس روز میں یہ جنگ ہار جائے گا اور چین بغیر کسی بھاری جانی نقصان کے لداخ اور ارونا چل پردیش پر قبضہ کرلے گا۔ ساہنی کے مطابق چین کے سامنے ہندوستانی فوج کی مزاحمت ٹک نہیں سکے گی کیونکہ انڈین ملٹری اور پی ایل اے کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اگر جنگ ہوئی تو روایتی جنگ نہیں ہوگی کیونکہ یہ صرف زمین، سمندر اور فضاؤں میں نہیں لڑی جائے گی بلکہ خلااور سائبر اسپیس میں بھی لڑی جائے گی۔اس جنگ میں چین کی جانب سے صرف فوجی نہیں بلکہ روبوٹ بھی لڑیں گے۔
  چین صرف ذہانت نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت بھی استعمال کرے گا۔ جدید ٹیکنالوجی اس جنگ میں بڑا رول ادا کرے گی۔ دونوں ممالک کی عسکری طاقت، تکنیکی صلاحیت اور معاشی وسائل کا تقابلی موازنہ کرنے کے بعد ساہنی اس نتیجہ پر پہنچے کہ چین کے ساتھ جنگ بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ مصنف کا دانا مشورہ یہ ہے کہ بھارت کو چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔شاید مودی جی نے ان کے مشورے پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ ۶۰؍سال قبل کمزور فوج، فرسودہ ہتھیار اور قلیل وسائل کے باوجود نہرو جی کی قومی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ چینی جارحیت کو بلا مزاحمت قبول کرلیں۔انہوں نے چین کے ساتھ جنگ کی۔ اس جنگ میں ہندوستان کی شرمناک شکست ہوئی اور ہمارے ہزاروں کلو میٹر علاقے چین کے قبضے میں چلے گئے۔  یہ جنگ نہرو کی نادانی تھی۔ گلوان کو پس پشت رکھ کر اگر مودی جی نے بالی میں جن پنگ کے سامنے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اس کی وجہ ان کی حقیقت پسندی اور مصلحت کوشی ہے۔ مودی جی نے چھوٹا نقصان اور چھوٹی ہزیمت اس لئے خاموشی سے برداشت کرلیا کیونکہ انہیں علم ہے کہ انہوں نے اگر چین سے ٹکرانے کا دوسرا آپشن اپنایا تو نقصان بھی بڑا ہو گا اور رسوائی اور جگ ہنسائی بھی بہت ہوگی۔پس نوشت: شروع شروع میں نہرو جی چین کے ساتھ جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن ایل اے سی پر چین کی مسلسل شورشوں کی وجہ سے عوام برہمی کا اظہار کر نے لگے اور حزب اختلاف اور میڈیا نہرو کے طرز عمل کی سخت تنقیدیں کرنے لگا۔واجپئی، کرپلانی اور مسانی جیسے اپوزیشن لیڈر چین کو سبق سکھانےکیلئے پارلیمنٹ میں نہرو جی پر دباؤ ڈالنے لگے۔ ۱۹۶۱ء میں نہرو جی نے پارلیمنٹ میں یہ اعلان کیا تھا کہ لداخ ۱۷۰۰۰؍ فٹ کی بلندی پر واقع ایک فضول ناقابل استعمال زمین کا ٹکڑا ہے۔گھریلو سیاست کی مجبوریوں اور بڑھتے دباؤ کے سبب ایک سال کے اندر انہوں نے ہندوستانی فوج کو چینیوں کو ماربھگانے کا غیر دانشمندانہ حکم دے دیا۔ لیکن مودی جی پر اس طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہے کیونکہ مودی جی کی دیش بھکتی سوالوں سے بالا تر ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’نہ کوئی ہماری سیما میں گھسا ہے اور نہ ہی ہماری کوئی پوسٹ کسی دوسرے کے قبضہ میں  ہے‘‘اور سارے دیش نے مان لیا۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر کوئی گھسا ہی نہیں تھا تو آ خر ۲۰؍ جون ۲۰۲۰ء کی نصف شب میں ایل اے سی پر تقریباً نصف صدی کے بعد ہندوستانی فوج اور پیپلزلبریشن آرمی کے درمیان جنگ کیوں؟ اور ہمارے بیس جانباز شہید کیوں ہوئے؟

lalit modi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK