Inquilab Logo

اندھیرا چاہے جتنا ہو اُجالا رُک نہیں سکتا!

Updated: February 24, 2024, 1:17 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

بلاشبہ ہندوستان بدلا ہے مگر بدلے ہوئے حالات سوچنے سمجھنے کیلئے کافی مواد بھی فراہم کرتے ہیں۔ دوسروں کو سننا اور خود کوئی تجزیہ نہ کرنا، محض سوشل میڈیا کا اسیر رہنا اور خود مثبت عمل کی جانب راغب نہ ہونا ٹھیک نہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بلند قامت ماہر قانون فالی ایس نریمان کا دو روز قبل انتقال ہوا ہے۔ ملک کے حالات پر اُنہوں نے جو تبصرہ کیا تھا اُس کا مفہوم کچھ یوں تھا: ’’مَیں نے سیکولر ہندوستان میں شب و روز گزارے، زندگی نے مجھے بہت کچھ دیا، شہرت و مقبولیت کی شکل میں جو کچھ کمایا اسی سیکولر فضا میں کمایا، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ عمر کب تک وفا کرے مگر چاہتا ہوں کہ جب میرا آخری وقت آئے تب میرا یہ ملک سیکولر ہی رہے!‘‘
سیکولرازم پر منڈلاتے گہرے سیاہ بادلوں کا احساس سب کو ہے مگر جب دانشوراس خطرہ کا احساس دلاتے ہیں تو اس کا مطلب فوری طور پر سمجھ میں آجاتا ہے کہ خطرہ حقیقی ہے اور یقینی ہے۔ بلاشبہ خطرہ حقیقی بھی ہے اور یقینی بھی، جو باتیں کہی گئیں اور کہی جارہی ہیں وہ بھی اپنی جگہ درست ہیں۔ ان سے انکار ممکن نہیں کیونکہ حالات کے تجزیئے سے ایسے ہی اشارے ملتے ہیں مگر نجانے کیوں مجھے اپنے اِس ملک میں بڑی طاقت اب بھی دکھائی دیتی ہے۔ لوگ، بالخصوص سیاسی جماعتیں، بھلے ہی سیکولرازم کو شجر ممنوعہ سمجھنے لگی ہوں اور کسی جماعت کا کوئی لیڈر اس لفظ کو نوک زبان پر لانا نہ چاہتا ہو مگر آپ سفر کیجئے، لوگوں سے ملئے، تبادلۂ خیال کیجئے، اُن کے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ کو آنکنے کی کوشش کیجئے تو بہت سے لوگ وہی سب کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں جو ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اُن تک پہنچتا ہے مگر جب سیاسی موضوعات کو بالائے طاق رکھ کر آپ اُن سے، اُن کی زندگی، اُن کے شب و روز، اُن کے اطراف و اکناف اور اُن کے حالات پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں تو جس سیکولرازم اور بھائی چارہ کے مظاہر اب کم کم دکھائی دیتے ہیں وہ گفتگو کے کسی روزن سے جھانکنے لگتا ہے۔ کیا یہ ایک متوازی حقیقت نہیں ہے؟
 اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ بلاشبہ بدل گئے ہیں مگر جتنے بدلے ہیں اُس سے کہیں زیادہ نہیں بدلے ہیں۔ ٹھیک ہے الہ آباد کا نام بدل گیا مگر فرخ آباد کا نام اب بھی وہی ہے، بنارس کا نام بدل گیا مگرشاہجہاں پور کا نام اب بھی وہی ہے، مغل سرائے کا نام بدل گیا مگر نجیب آباد کا نام وہی ہے۔ آپ سوچتے چلے جائیے اور ذہن میں درجنوں نام آتے چلے جائینگے جو نہیں بدلے۔
 یہ بھی ٹھیک ہے کہ مساجد فرقہ پرستوں کی نگاہوں میں کھٹکنے لگی ہیں مگر جن مساجد کے خلاف طومار باندھا جارہا ہے اُن کے علاوہ بھی مسجدیں ہیں جو اپنی جگہ موجود ہیں اور جہاں سے پنج وقتہ اذانیں آج بھی گونج رہی ہیں۔ مدارس پر بھی خطرہ منڈلا رہا ہے مگر جتنے مدارس کے خلاف سازشیں جاری ہیں اُن سے کہیں زیادہ وہ ہیں جہاں آج بھی ہزاروں طلبہ پوری مستعدی کے ساتھ حصول علم میں مصروف ہیں۔ بہت کچھ بدلا مگر بہت کچھ اب بھی نہیں بدلا ہے۔ گزشتہ دس سال میں زہر اُگلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر گزشتہ دس برسوں ہی میں وہ لوگ بھی عوام میں متعارف ہوئے جنہیں کل تک کوئی نہیں جانتا تھا۔
 چنانچہ، انہی بدلے ہوئے حالات میں رویش کمار جیسا صحافی روزانہ اپنے ناظرین و سامعین کو نت نئے زاویوں سے بہت سی باتیں سمجھاتا ہے۔ جب رویش نے محسوس کیا کہ این ڈی ٹی وی ’’زندان ِ بلا‘‘ میں تبدیل ہونے جارہا ہے تو اس اعلان میں اُنہیں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوئی کہ لیجئے ’’ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں!‘‘۔ اُن کی آواز آج بھی سنائی دے رہی ہے جو روزانہ دیواروں کا مقابلہ کررہی ہے۔ اُن کے ناظرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان بدلا ضرور ہے مگر رویش کی آواز سننے کیلئے بے تاب رہنے والوں کی تعداد گھٹی نہیں، بڑھی ہے۔ اسی طرح، وہ چاہے کنہیا کمار ہوں یا پروفیسر اپوروانند یا یوگندر یادو،  ان کی باتیں سننے اور انٹرویوز کا انتظار کرنے والوں کی تعداد کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ یہاں یہ دو تین نام بطور مثال پیش کئے گئے ہیں ورنہ فہرست تو کافی طویل ہے۔ یوٹیوب چینل قائم کرنے والے کئی سینئر صحافی روزانہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے سامعین کو حالات حاضرہ سے باخبر کرنے کی دردمندانہ کوشش کرتے ہیں۔ ان کے طرز فکر کو دیکھئے، آپ محسوس کرینگے کہ جتنے خطرات بڑھے ہیں، خطرات کے خلاف آگاہی اور بیداری کا سلسلہ اُتنا تیز ہوا ہے۔
حکمراں طبقہ یہی چاہتا تھا کہ ہندوستان بدل جائے۔ دس سال میں اس نے نہایت عاجلانہ انداز میں ڈھیر ساری کوششیں کیں۔ اتنی کوششوں کی وجہ سے اُتھل پتھل تو مچنی تھی۔ پانی میں پتھر پھینکا جائے تو لہریں تو بنتی ہیں۔ یہاں بھی بنیں۔ حالات بدلے یا بدلتے ہوئے محسوس ہوئے اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ اِس وقت حکمراں طبقہ حواس باختہ ہے کہ اگر ’’انڈیا‘‘ اتحاد واقعی متحد ہوگیا تو جس لڑائی کو ہم ۲۰؍ بمقابلہ ۸۰؍ بنانا چاہتے تھے وہ نئی شکل اختیار کرکے ۴۰؍ بمقابلہ ۶۰؍ (فیصد ووٹ) بن جائیگی۔ ای ڈی کے چھاپے، جو  معمول بن چکے ہیں، اب تیز تر ہوگئے ہیں۔ پارٹیوں کی شکست و ریخت یا ’’یہاں سے وہاں‘‘ اور ’’وہاں سے یہاں‘‘ کی خبریں بھی  بار بار سننے کو مل رہی ہیں۔ یہ کیوں ہے؟ یہ اس لئے ہے کہ حکمراں طبقہ اپنے عزائم میں جزوی کامیابی ہی حاصل کرسکا، جزوی طور پر ناکام ہوا ہے۔ اب یہ آپ کی صوابدید پر ہے کہ جزوی کامیابی کو کتنا مانیں اور جزوی ناکامی کو کتنا آنکیں، حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ جس ووٹ فیصد پر حکمراں طبقہ ناز کررہا تھا، اُس محل کی دیواروں میں شگاف آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔
 ایک بار پھر عرض ہے کہ بلاشبہ ہندوستان بدل گیا ہے مگر جتنا بدلا اُس سے کہیں زیادہ جوں کا توں ہے، اسی لئے جو بچ گیا اُسے بچائے رکھنے کی جدوجہد بدلے ہوئے اس ہندوستان کے ہر شخص کو کرنی چاہئے، سیاسی جماعتوں سے لوَ لگائے رہنا کافی نہیں، سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد اور مفادات کیلئے کام کرتی ہیں اور آپ نے دیکھا کہ کس طرح وہ پتے بھی ہوا دینے لگے جن پر تکیہ تھا، سیاسی جماعتیں عوام کے جذبات و احساسات کے احساس کے باوجود اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہیں، فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد  کرنی ہے تو اُس کی ابتداء اپنی ذات سے ہونی چاہئے، اس میں ایک ایک فرد کی شرکت ضروری ہے۔ اگر یہ جدوجہد نہیں کی گئی تو حالات کو یکسر بدلنے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ 

india Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK