حکومت ِ اسرائیل انتقاماً فلسطینی مزدوروں کا ورک پرمٹ منسوخ کرنے کے بعد اب ان خالی اسامیوں کو پر کرنے کیلئے انڈیا سے مزدور امپورٹ کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہےکہ تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی بھلا ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ اس ملک میں جانے کے لئے بیتاب ہیں جو ہولناک جنگ کا محاذ بنا ہوا ہے؟
بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ تصویر:آئی این این
کس نے کہا کہ جنگ سے کسی کا بھلا نہیں ہوتا ہے؟مشرق وسطیٰ میں ایک سو دنوں سے جاری جنگ نے غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کی زندگی بھلے ہی جہنم زار بنا دی ہو لیکن اس کے نتیجے میں ہندوستان کے بے روزگاروں کو روزگار کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ ۷؍ اکتوبر کے حملوں کے بعداسرائیل کی حکومت نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے مغربی کنارہ کے ان ایک لاکھ تیس ہزار فلسطینی مزدوروں کا بھی ورک پرمٹ منسوخ کردیا جن کا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب ان خالی اسامیوں کو پر کرنے کیلئے اسرائیل انڈیا سے مزدور امپورٹ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی مجبوری تو قابل فہم ہے لیکن ان تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی بھلا ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ اس ملک میں جانے کے لئے بیتاب ہیں جو ہولناک جنگ کا محاذ بنا ہوا ہے؟
ٹائمز آف انڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ کی اس سرخی’’ یہاں فاقہ کشی سے مرنے سے اچھا ہے اسرائیل جاکر مریں ‘‘سے یہ عقدہ کھل گیا۔ یہ اس نوجوان کا بیان ہے جو ہریانہ سرکار کے مزدور بھرتی مرکز میں اسرائیل جانے کے لئے اپنے نام کا اندراج کرانے کے لئے قطار میں کھڑا تھا۔ یہ شخص ہسٹری میں ایم اے ہے اور پھر بھی بیکار ہے۔ اس جیسے لاکھوں ڈگری یافتہ ملک کے ہر صوبے میں نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ ابھی چار پانچ دن قبل اتر پردیش میں کانسٹبل کی نوکری کے لئے پچاس لاکھ لوگوں نے درخواستیں جمع کروائی ہیں جن میں پندرہ لاکھ لڑکیاں ہیں ۔
اسرائیل میں اس وقت ورک فورس کی شدید کمی ہوگئی ہے اور بنجامن نیتن یاہو نے ہندوستان سے ایک لاکھ تعمیراتی اور زرعی مزدور، بجلی مستری، پلمبر اور درزی امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوری طور پر ہریانہ اور اتر پردیش سے سیکڑوں کی تعداد میں لوگ اسرائیل جانے کیلئے اپنے نام رجسٹر کروارہے ہیں ۔ حالانکہ مزدور یونین تنظیموں نے وار زون میں ہندوستانی شہریوں کو نوکری کیلئے بھیجنے کے حکومت کے اقدام کی مخالفت کی ہے تاہم اپنی بیکاری سے نجات پانے کے جنون میں یہ لوگ خود اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں ۔
یہ کوئی آج پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔عراق میں جون ۲۰۱۴ء میں ۴۶؍ہندوستانی نرسوں کو داعش نے تین ہفتوں تک تکریت کے اسی ہسپتال میں یرغمال بناکررکھا تھا ۔ انہیں ۲۳؍دنوں کے بعد رہائی نصیب ہوئی تھی۔عراق کے موصل میں دہشت گردوں نے جن ۳۹؍ ہندوستانی مزدوروں کو اغوا کیا وہ ان نرسوں کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ داعش نے ان کا قتل کردیا اور چار برسوں کے بعد ایک اجتماعی قبر سے ان کی باقیات ملیں ۔ عراق دنیا کا خطرناک ترین مقام بن گیا تھا جہاں غیر ملکی باشندوں کے اغوا اور قتل کی وارداتیں مسلسل ہورہی تھیں ۔ ان شدید خطرات کے مدنظر حکومت ہند نے عراق میں ملازمت پر پابندی عائد کردی تھی اس کے باوجود بے شمار لوگ غیر قانونی راستے سے وہاں جاتے رہے ۔
دس سال قبل ان ہندوستانیوں کے عراق جانے کے وہی محرکات اور اسباب تھے جوآج ہریانہ یا یوپی کے نوجوانوں کے اسرائیل جانے کے ہیں :بے روزگاری اور غریبی۔وطن عزیز میں بے روزگاری غالباً سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ سنٹرفار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے سروے کے مطابق اکتوبر میں بے روزگاری ۷؍ فیصد سے بڑھ کر ۱۰؍ فیصد تک جاپہنچی۔اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ۲۵؍سال سے کم عمر ہندوستانی گریجویٹ نوجوانوں میں ۴۲؍فیصد بے روزگار ہیں ۔دسمبر میں چند مایوس نوجوانوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ایک انوکھے ڈھنگ سے احتجاج کیا۔وہ چاروں آج جیل میں بند ہیں اور ان پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمے چل رہے ہیں ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان اتنا خطرناک قدم اٹھانے پر کیوں مجبور ہوئے؟ انہوں نے اپنی زندگی اور مستقبل کو کیوں داؤ پر لگادیا؟ پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کرنے والے ہوں یا ہریانہ میں اسرائیل جانے کے لئے قطار میں کھڑے ہونے والے یہ سب حالات کے ستائے تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان ہیں جو شدید مجبوری، مایوسی اور بے بسی کا شکار ہوچکے ہیں ۔
ایک طرف ملک میں روزگار عنقا ہوتے جارہے ہیں اور بیکاری بڑھتی جارہی ہے اور دوسری جانب حکومت بار بار یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ہندوستان دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے پچھلے ایک ماہ میں متعدد بار یہ ’’مژدہ‘‘ سنایا ہے کہ ہندوستان اگلے چند برسوں میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی اکانومی بن جائے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن بھی گیا تو کیا بے روزگاری کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ ایسا لگتا تو نہیں ہے کیونکہ نرسمہاراؤ کے دور اقتدار میں کی گئی معاشی اصلاحات کے بعد ملک کی اقتصادی حالت یقیناً کافی بہتر ہوئی ہے لیکن ماہرین اقتصادیات کا یہ ماننا ہے کہ اقتصادی ترقی بڑے پیمانے پر ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے اسی لئے اس ترقی کو Jobless growth کہتے ہیں ۔ دی اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا کی رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی روزگار کی فراہمی کی گارنٹی نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں پچھلے دس برسوں میں ارب پتیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کے ساتھ ساتھ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ دس سال قبل مودی جی نے ہندوستانی عوام سے متعدد دلفریب وعدے کئے تھے جن میں سب سے اہم وعدہ ہر سال دو کروڑ نوکریوں کی فراہمی کا تھا۔ سرکار کی دس سالہ کارکردگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ روزگار مہیا کرانے میں یہ سرکار بری طرح ناکام رہی ہے۔ غریبی اور بے روزگاری کسی نوجوان کو صرف مالی وسائل سے ہی نہیں عزت و وقار سے بھی محروم کردیتی ہے۔ جب کوئی تعلیم یافتہ نوجوان دربدر کی خاک چھاننے کے باوجود نوکری حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے اور پھر اپنے باپ کو ماں سے سرگوشیوں میں یہ کہتے ہوئے سن لیتا ہے کہ’’ نکماگھر میں بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑتا رہتا ہے‘‘ تواس کی عزت نفس چور چورہوجاتی ہے اور زندگی اتنی گراں لگتی ہے کہ وہ خودکشی پر مائل ہوجاتا ہے۔ ایسے نوجوان کو نوکری کے لئے جنگ زدہ اسرائیل کا سفر قدرے بہتراور کم رسک والا آپشن لگ رہا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سے پانچ لاکھ اسرائیلی شہری ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔جس ملک کے شہری اسے غیر محفوظ سمجھ کرفرار ہورہے ہیں وہاں جاکر نوکری کرنے کے لئے اگر ہندوستانی نوجوان تیار ہیں تو آپ ان کی ذہنی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔