Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیتن یاہو پر بڑھتا دباؤ، اسرائیلی افواج غزہ جنگ کے خلاف آواز بلند کررہی ہیں

Updated: May 01, 2025, 8:13 PM IST | Jerusalem

حال ہی میں اسرائیلی فوج کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ریزرو فوجیوں نے خطوط پر دستخط کئے ہیں جن میں وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ کو ختم کرے اور حماس کی قید میں موجود باقی۵۹؍ یرغمالیوں کی بازیابی کیلئے معاہدے پر توجہ دے۔

A scene from a demonstration against Netanyahu. Photo: INN.
نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این۔

غزہ میں اسرائیل کی جنگ جاری ہے، لیکن اس کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی فوج کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ریزرو فوجیوں نے خطوط پر دستخط کئے ہیں جن میں وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ کو ختم کرے اور حماس کی قید میں موجود باقی۵۹؍ یرغمالیوں کی بازیابی کیلئے معاہدے پر توجہ دے۔ ۱۸؍ماہ قبل، بہت کم اسرائیلی ایسے تھے جو اس جنگ کی منطق پر سوال اٹھاتے تھے، مقصد تھا حماس کو شکست دینا اور یرغمالیوں کو واپس لانا۔ بہت سے لوگوں کیلئےجنوری میں ہونے والی جنگ بندی اور ۳۰؍سے زائد یرغمالیوں کی واپسی نے امیدیں جگا دی تھیں کہ جنگ جلد ختم ہو جائے گیلیکن جب اسرائیل نے مارچ کے وسط میں جنگ بندی توڑ دی اور دوبارہ جنگ شروع کر دی تو یہ امیدیں ٹوٹ گئیں۔ سابق موساد چیف ڈینی یاٹوم نے بتایا:’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیل ایک بہت خراب سمت میں جا رہا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ نیتن یاہو کو سب سے زیادہ اپنی ذات کی فکر ہےاور ترجیحات کی فہرست میں ان کے ذاتی مفادات اور حکومت کو برقرار رکھنا سب سے اوپر ہیں، نہ کہ یرغمالیوں کی بازیابی۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: آئی سی جے سماعت: عالمی برادری نے فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار بنانے پر اسرائیل کی مذمت کی

خط پر دستخط کرنے والوں میں سے کئی یاٹوم کی طرح وزیر اعظم کے دیرینہ ناقدین ہیں۔ کچھ وہی افراد ہیں جو۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ سے پہلے حکومت مخالف مظاہروں میں شامل تھے۔ 
لیکن یاٹوم کا کہنا ہے کہ انہوں نے سیاسی وجہ سے نہیں بلکہ قومی مفاد کے تحت آواز اٹھائی۔ پہلا عوامی خط اپریل کے اوائل میں شائع ہوا جس پرایک ہزار فضائیہ کے ریزرو اہلکاروں اور ریٹائرڈ افسران نے دستخط کئے۔ انہوں نے لکھا، ’’جنگ کا جاری رہنا اس کے کسی بھی اعلان کردہ مقصد میں معاون نہیں اور یہ یرغمالیوں کی موت کا باعث بنے گا۔ ‘‘ انہوں نے اسرائیلیوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چلیں کیونکہ غزہ میں اب بھی زندہ سمجھے جانے والے تقریباً ۲۴؍یرغمالیوں کا وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ 
اس کے بعدفوج کے تقریباً ہر شعبے – بشمول خصوصی جنگی اور انٹیلی جنس یونٹس – سے اسی نوعیت کے خطوط سامنے آئے جن پر کئی اعلیٰ اعزاز یافتہ کمانڈرز نے بھی دستخط کئے۔ اب تک۱۲؍ ہزار سے زائد دستخط ہو چکے ہیں۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کےبعد لاکھوں اسرائیلی ریزرو اہلکاروں نے بلا جھجک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن اب انکار کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہےاور رپورٹس کے مطابق ریزرو فورسیز کی حاضری۵۰؍ سے۶۰؍ فیصد تک گر چکی ہے۔ ایک ایسی فوج کیلئے جو ریزرو اہلکاروں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، یہ بحران اسرائیل کی پہلی لبنان جنگ ۱۹۸۲ءکے بعد سب سے بڑا مانا جا رہا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’اسرائیل کے انخلاء سے قبل امن کی کوئی گفتگو نہیں ہوگی‘‘

یروشلم کے ایک سرسبز پارک میں میری ملاقات ’’یوعاف‘‘ (فرضی نام) سے ہوئی جو ایک پیدل فوجی ریزرو اہلکار ہے اور شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یوعاف نے گزشتہ موسمِ گرما غزہ میں خدمات انجام دیں لیکن اب کہتا ہے کہ وہ دوبارہ نہیں جائے گا۔ ’’مجھے لگا تھا کہ مجھے اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنی ہے۔ ‘‘ اس نے بتایا۔ ’’مجھے لگا کہ میں کچھ اچھا کر رہا ہوں، مشکل مگر اچھا لیکن اب میں اسے ویسے نہیں دیکھتا۔ ‘‘یوعاف کا کہنا ہے کہ جب حکومت حماس سے لڑنے پر زور دیتی ہے جبکہ یرغمالی غزہ کی سرنگوں میں موت کے خطرے میں ہیں، تو یہ ایک غلط ترجیح ہے۔ ’’ہم بہت طاقتور ہیں اور ہم حماس کو شکست دے سکتے ہیں لیکن بات حماس کو شکست دینے کی نہیں بلکہ اپنے ملک کو کھونے کی ہے۔ ‘‘یوعاف نے کہا کہ وہ غزہ میں زیادہ سے زیادہ اخلاقی سپاہی بننے کی کوشش کرتا رہا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: بین گویر کے دورہ کیخلاف فلسطین حامیوں کا مظاہرہ، مسلم تنظیم کا اسے ملک سے نکالنے کا مطالبہ

لیکن جیسے جیسے جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے، ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کیلئے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اس کی فوج دنیا کی سب سے زیادہ اخلاقی فوج ہے۔ اخبار ہآرٹس میں ایک حالیہ کالم میں، ریٹائرڈ جنرل امیرام لیوین نے لکھا کہ فوجی — بالخصوص اعلیٰ کمانڈر اب حکم عدولی پر غور کریں۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’جنگی جرائم میں گھسیٹے جانے اور اسرائیلی فوج اور ہمارے معاشرتی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہمیں خاموش تماشائی نہیں رہنے دے سکتا۔ ‘‘
بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف میں مقدمے لے جانے والے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سرحدیں شاید پہلے ہی پار ہو چکی ہیں۔ نیتن یاہو نے مظاہرین پر شدید تنقید کی اور ان کے خدشات کو ’’جھوٹا پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیا جوان کے بقول’’چند مٹھی بھر شور مچانے والے انارکسٹ ریٹائرڈ افراد‘‘ کی طرف سے پھیلایا جا رہا ہے، جنہوں نے برسوں سے خدمت بھی نہیں کی۔ ‘‘لیکن رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ ان احتجاجی خطوط میں عوامی سوچ کی ایک بڑھتی ہوئی لہر جھلکتی ہے کہ باقی یرغمالیوں کی رہائی سب سے اہم ہونی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK