افسوس کی بات ہے کہ آج جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے تب ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے
EPAPER
Updated: August 15, 2023, 11:26 AM IST | Shaikh Abdul Azeem Abdul Rafiq | Mumbai
افسوس کی بات ہے کہ آج جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے تب ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے
جنگ آزادی ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جسےکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔۱۵؍اگست۱۹۴۷ء کوہندوستان آزاد ہوا تب سے لے کر آج تک پورے ملک میں آزادی کا جشن نہایت شان وشوکت سے منایا جاتا ہے اور مجاہدین آزادی کو یاد کیا جاتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی اس پر غور کیا جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں میں علمائےکرام کا رول کتنی اہمیت رکھتا ہے؟ افسوس کی بات ہے کہ جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے تب ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔آج بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ جنگ آزادی میں علماء کاکوئی کردار اور کارنامہ رہا ہے۔ حالانکہ ان علمائے کرام کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔
علامہ فضل حق خیرآبادی
انہوں نے۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ مسلمانوں کو عزت و آبرو مندانہ زندگی بسر کرنے کیلئے ایک باقاعدہ جہاد کا فتویٰ تیار کیا تھا۔ جگہ جگہ دورہ کرتے ہوئے دہلی پہنچے اور جنرل بخت خاں سے ملاقات کی۔ آخر میں بعد نماز جمعہ دلی کی جامع مسجد میں علماء اور عوام کی کثیر تعداد کے سامنے زبردست تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔ اس کے بعد گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، انگریز ججوں کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس مخبر نے مولانا کے خلاف گواہی دی تھی، وہ ان کی علمی ہیبت سے لرز اٹھا اور عدالت میں کہنے لگا کہ یہ وہ شخص نہیں ہے۔ علامہ نےکچہری میں للکارتے ہوئے کہا کہ مخبر جوبیان دے چکا ہے، وہی صحیح ہے اور اب میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیا ہے۔ سنو جہاد کا فتویٰ میں نے ہی دیا ہے اور میں اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہوں ۔اس کے بعد انہیں کالا پانی کی سزا ہوئی اور وہیں آپ کا انتقال ہوا۔
حضرت مولانا کفایت علی کافی مراد آبادی
۱۸۵۷ء سے قبل آگرہ میں قیام تھا۔ انہوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا تھا۔ بریلی کے اطراف میں جہاد کیلئے دورے کئے۔ حویلی مراد آباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علم جہاد بلند فرمایا۔ مولانا نے جنرل بخت خاں ، شیخ افضل صدیقی، شیخ بشارت علی خاں ، مولانا سبحان علی، نواب امجد الدین اور مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی کی معیت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں کو شکستیں دیں ۔بالآخر انگریزوں نے رمضان کے مہینے میں ۳۰؍ اپریل۱۸۵۸ء کو گرفتار کر کے مراد آباد جیل سے متصل برسرعام تختہ دار پر لٹکادیا تھا۔ پھانسی کے وقت مولانا یہ شعر ترنم سے نہایت ہی والہانہ انداز میں پڑھ رہے تھے۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہؐ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم صفیر و باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
مولانا رضا علی خان عابدی
مجدددین وملت امام احمد رضا خاں کے دادا بزرگوار نے فرنگی تسلط کے خلاف مجاہدین کے ساتھ تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ بریلی میں آپ کا مکان اور مسجد انقلابیوں کا مرکز تھا۔ مولانا عنایت احمد کا کوروی اور نواب خان بہادر کی قیادت میں جگہ جگہ ان کے ساتھ رہے۔ جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپے رکھا تھا۔
مجاہد اعظم مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی
۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرکے تحریک کے قائد اعظم کی حیثیت سے بخت خان کے دست راست بن کر دہلی پہنچے۔ بخت خان کے مشورے سے علامہ فضل حق نے جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر تقریر کی اور فتویٰ جہاد مرتب کیا۔مفتی صدرالدین آزردہ، ڈاکٹر وزیر خاں ، سید مبارک شاہ اور احمد اللہ شاہ مدراسی نے اس پر اپنے دستخط کئے اور مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت کی۔ الغرض برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑانے والوں میں آپ کا نام بھی سرفہرست ہے۔ تن من دھن سب کچھ ملک وملت پر نثار کرکے بالآخر شاہجہاں پور کے میدان کار زار میں داد شجاعت دیتے ہوئےجام شہادت نوش فرما گئے۔
مفتی عنایت احمد کا کوروی
علی گڑھ میں ہی سرکار انگریزی میں مفتی ومصنف پر مقرر کئے گئے۔ ایک سال کے بعد بریلی تبادلہ ہوا جہاں اکابر علما ورہنما اصحاب کی سرکردگی میں تحریک انقلاب کی سلسلہ جنبانی جاری تھی۔ مفتی عنایت احمد بھی شب و روز بریلی کے انقلاب گروہ کی مشاورتی مجالس میں شرکت کرنے لگے اور نواب خان بہادر خان کی قیادت میں جہاد حریت تنظیم کیلئے سرگرم عمل ہوئے۔ جگہ جگہ خان بہادر خان کے دست راست بنے۔ کچھ دنوں بعد گرفتار کرلئے گئے اور پھر کالاپانی کی سزا تجویز ہوئی جہاں پہلے سے فضل حق خیرآبادی اور مولانا مفتی مظہر کریم دریاآبادی موجود تھے۔ زنداں کی تکلیف اور غریبی الوطنی کے باوجود حفظ قرآن پاک بھی کیا اور سیرت نبویؐ میں ’حبیب اللہ‘ کے عنوان سے مدد ومراجعت کی تالیف کی۔ کچھ عرصے بعد رہائی ہوئی تو۱۸۶۳ء میں حج کے ارادے سے روانہ ہوئے۔پانی کا جہاز سمندری پہاڑ سے ٹکرا کر ڈوب گیا اورمفتی صاحب حالت نماز احرام باندھے ہوئے غریق رحمت ہوئے۔
علمائے دیوبند کا نمایاں کردار
جنگ آزادی، اسلام کی آبیاری وطن کی حفاظت اور اسلام دشمن طاقتوں سے لوہا لینے کے ایک تحریک کی شکل میں مجاہدین آزادی کو پیدا کرنے کی خاطر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور پھراس نے ایسے ایسے سپوت پیدا کئے جنھوں نےملک میں آزادی وطن کی شمع روشن کی۔ تاریخ کا ایک روشن باب ہے صوبہ جات متحدہ کا انگریز گورنر مسٹن کہا کرتا تھا کہ ’’اگر شیخ الہند کو جلا کر راکھ کر دیا جائے تو ان کی راکھ کے اندر سے بھی انگریز دشمنی کی بو آئے گی۔‘‘ انھوں نے ’ریشمی رومال ‘کی تحریک چلاکر انگریزوں کو حیران کردیا تھا۔ انگریزوں کو آخر تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس تحریک کے پیچھے اصل دماغ کس کا ہے۔ انگریز حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور دوسرے علماء کو اس تحریک کا سربراہ سمجھتے رہے لیکن شیخ الہند کا جو دماغ تھا وہ انگریز جیسی ذہن قوم کی سمجھ سے بالاتر تھا اور انہو ں نے سیکڑوں ایسے جیالے اور جید علماء پیدا کئے جنہوں نے انگریز حکومت کی ناک میں دم کردیا تھا۔ شیخ الہند کے ساتھ مالٹا میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی بھی اسیر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علمائے کرام نے جہاد آزادی کے چمن کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے اور اسے پروان چڑھایا ہے۔