Inquilab Logo

بھارت کا خوب نام روشن ہورہا ہے

Updated: June 08, 2022, 11:17 AM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

مودی سرکار اگر واقعی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہندوستان میں سبھی مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے اور مذہبی شخصیات کی توہین کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے تو مجرموں کو فوراً گرفتار کرنا ہوگا۔ اور ہاں!بات بات پر غریبوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کروانے والی حکومت کیا نپور اور نوین کے گھروں پر بلڈوزر چلوائے گی؟

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 وزیر اعظم مودی  نے ۲۸؍ مئی کو راجکوٹ میں نہایت فخر سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں ’’ غلطی سے بھی ایسا کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو ایسا کچھ کرنے دیا جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کاسر شرم سے جھک جائے۔‘‘ستم ظریفی دیکھئے کہ اس بیان سے ٹھیک ایک دن قبل بی جے پی کی قومی ترجمان نپور شرما نے ٹائمز ناؤ چینل کے ایک ڈیبیٹ میں پیغمبرؐ اسلام پر نہایت نازیبا تبصرہ کیاجس نے ساری دنیا میں نہ صرف ہندوستانیوں بلکہ ہندوستان کو بھی شرمسار کردیا۔ اتوار کے دن جب خلیجی ریاستوں میں اس گستاخی پر غم و غصے کی لہر پھیل گئی اور ہندوستانی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوگئی تو مودی سرکار کو ہوش آیااور اس نے آناً فاناً نپور شرما اور نوین جندل (جس نے بعد میں نپور کے شرمناک ریمارکس کو ٹوئیٹ کیا تھا)کو پارٹی سے نکال دیا لیکن اس ناٹک سے بھی عالم اسلام میں برہمی کم نہیں ہوئی۔ قطر، کویت اور ایران نے بھارتی سفیروں کو طلب کر کے سخت احتجاج درج کرایا اور نئی دہلی سے معافی کا مطالبہ کیا۔پچھلے دو دنوں میں سعودی عرب، عمان، بحرین، اردن، مصر، لیبیا، افغانستان، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات نے بھی بی جے پی کے ترجمانوں کے ذریعہ اہانت رسول پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔    
  امریکہ جب بھارت میں مذہبی آزادی سلب کئے جانے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ مودی سرکار’’یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے‘‘کہہ کر اسے خاموش کردیتی ہے لیکن خلیجی ریاستوں نے جب بی جے پی کے غیر ذمہ دار لیڈروں کی مذموم کرتوتوں کے خلاف آواز بلند کی تو اسے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔زرعی بل واپس لینے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب مودی سرکار کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی جی کے دور اقتدار میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے رکن ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، عمان اور بحرین کے ساتھ نئی دہلی کے تعلقات مستحکم ہوئے ہیں۔ مودی جی کو ان ممالک نے اعلیٰ ترین قومی اعزازات سے نوازا ہے۔ ہندوستان میں پچھلے سات  برسوں میں درجنوں بے گناہ ماب لنچنگ کا شکار ہوگئے، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی، تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام لگایا گیا، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی، تعصبانہ شہریت قانون بنادیا گیا، حجاب پر پابندی لگادی گئی، غریبوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیئے گئے اورکھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے اعلان کئے گئے، پھر بھی خلیجی ملکوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ تاہم جب پیغمبر اسلام کی توہین کرکے بی جے پی کے دو لیڈروں نے گستاخی کی تمام حدیں پار کردیں توعرب دنیا میں بھونچال آنا فطری تھا۔ بی جے پی نے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا ہے۔اس بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی جے پی تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے اور ہر مذہب کی قابل احترام ہستیوں کی توہین کی شدید مذمت کرتی ہے۔ میں نے اس بیان کو دو دوبارپڑھا صرف یہ دیکھنے کیلئےکہیں یہ کانگریس پارٹی کا بیان تو نہیں ہے۔کاش  بی جے پی نے یہ بیان آٹھ سال پہلے جاری کردیا ہوتا تو ملک وقوم کی اتنی بربادی نہ ہوتی۔  درجنوں بے گناہوں کی جانیں بچ جاتیں،وزیر داخلہ امیت شاہ کو سی اے اے جیسا متعصبانہ قانون بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی، لاکھوں کشمیر یوں کو ایک سال تک گھروں میں محصور نہیں رہنا پڑتا۔ اگربی جے پی نے یہ بیان آٹھ سال پہلے جاری کردیا ہوتا تو نہ سبزی اورپھل فروشوں کا بائیکاٹ کیا جاتا، نہ ہی حجابی لڑکیوں پر کالجوں کے دروازے بند کئے جاتے، نہ ہی غریبوں کے آشیانوں پر بلڈوزر چلتے اور نہ ہی کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکیاں دی جاتیں۔  ہندوستانی سفیروں نے دوحہ، تہران اور کویت میں یہ وضاحت دی ہے کہ پیغمبر اسلام کے خلا ف یہ نازیبا بیان کچھ ’’شرارتی عناصر‘‘ نے دیئے ہیں اور ان کا ہندوستان کی حکومت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حکمراں پارٹی کے قومی ترجمان پر ’’شرارتی عناصر‘‘کا لیبل چپکا کربی جے پی کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی ہے؟ نپور شرما اگر سیاسی بساط کی ایک معمولی پیادہ تھیں تو دہلی اسمبلی الیکشن میں ان کو اروند کیجریوال جیسے لیڈر کے خلاف بی جے پی نے امیدوار کیسے بنایا تھا؟ بی جے پی کی اس بچکانہ توجیہ پر کوئی بچہ بھی یقین نہیں کررہا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ حرکت ’’شرارتی عناصر‘‘ کی تھی تو اس پر کانپور میں جو دنگے بھڑکے وہ فطری ردعمل تھے۔پھر کانپور میں احتجاج کرنے والوں کو جیلوں میں کیوں ٹھونسا گیا؟
  اس وقت بی جے پی بیک فٹ پر ضرور ہے لیکن یہ نہ تو ہندوتوا کے اپنے کٹر نظریے سے منحرف ہوئی ہے اور نہ ہی اس کو اچانک سیکولرزم کا بھولا ہوا سبق یاد آیا ہے۔ بی جے پی کو بین الاقوامی دباؤ میں نپور شرما اورنوین جندل کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ اس اقدام میں کوئی خلوص نیتی شامل نہیں ہے بلکہ صرف اپنا مفاد ملحوظ خاطر ہے۔ آج ایسے ۸۰؍ لاکھ ہندوستانی باشندے جنہیں اپنے وطن میں روزگار نہیں ملا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر،اومان، بحرین اور کویت جیسے ممالک میں روزی کمارہے ہیں۔ ۲۰۲۰ء میں خلیج سے ہندوستانی ورکرز  نے ۸۳؍بلین ڈالر کی خطیر رقم وطن بھیجی۔ علاوہ ازیں خلیج تعاون کونسل(جی سی سی) کے چھ رکن ممالک کے ساتھ پچھلے ایک سال میں ہندوستان کی تجارت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ ہندوستانی برآمدات ۲۸؍ارب ڈالر سے بڑھ کر ۴۴؍ ارب ڈالر اور درآمدات ۶۰؍ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۱۱۰؍ ارب ڈالر تک جاپہنچی ہیں۔مودی سرکار کو یہ خوف ستارہا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کی حماقتوں اور شر انگیزی کی وجہ سے نئی دہلی اور عرب ممالک کے رشتوں میں دراڑ پڑسکتی ہے جس کی وجہ سے ملک کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔  وزارت خارجہ نے عرب حکومتوں کی برہمی کم کرنے کیلئے انہیں اطلاع دی ہے کہ’’ ان افراد کیخلاف سخت کارروائی کردی گئی ہے۔‘‘پارٹی سے برطرفی بھی کوئی سخت کارروائی ہے؟ منور فاروقی کو ایک ایسے لطیفہ کیلئے جیل جانا پڑا جو اس نے سنایا بھی نہیں تھا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ اس کا ارادہ دیوی دیوتاؤں کاتمسخر اڑانا تھا۔نپور نے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر دو ارب انسانوں کے جذبات مجروح کرنے والا بیان دیا اور نوین نے اسے دہرایا پھر بھی دونوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ اور یواے پی اے  کے تحت مقدمے درج نہیں کئے گئے؟ مودی سرکار اگر واقعی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہندوستان میں سبھی مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے اور مذہبی شخصیات کی توہین کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے تو مجرموں کو فوراً گرفتار کرنا ہوگا۔ اور ہاں!بات بات پر  غریبوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کروانے والی حکومت کیا نپور اور نوین کے گھروں پر بلڈوزر چلوائے گی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK