Inquilab Logo

باخبر اور بیدار اساتذہ نصابی کتابوں پر زعفرانی یلغار کو روک سکتے ہیں

Updated: December 04, 2023, 4:37 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قوم کے ماہرین تعلیم اور دانشور نیز تاریخ سے مکمل واقفیت رکھنے والے افراد دستیاب ذرائع سے لوگوں کو بتائیں کہ سچی تاریخ کیا ہے؟ طلبہ کے درمیان یہ کام ہمارے اساتذہ بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔

A student`s mind is like a blank sheet of paper, the things told in childhood stay with them throughout their life. Photo: INN
طلبہ کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہو تا ہے، بچپن میں بتائی گئی باتیں، زندگی بھر ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ تصویر : آئی این این

دوسری قوموں کومعلوم ہے کہ بچّے کے کورے ذہن پر تاریخ کی کسی بھی شخصیت کی جو بھی تصویر کھینچی جائے گی وہ انمٹ ہو گی۔ ان کے ذہنوں میں بسے روحانی رہبر یعنی ان کے اساتذہ کی بتائی ہوئی، دہرائی ہوئی باتیں ، انہیں ہوم ورک کے شکل میں دیئے گئے کام ان کو بخوبی یاد کر کے امتحان میں لکھائی گئی باتیں ۔ یہ سارا طویل عمل زندگی کا ایک اٹوٹ حصہّ بن جاتا ہے۔ پھر آگے چل کر کس میں طاقت ہے کہ ان نقوش کو ذہن سے کھرچ سکے، انہیں غلط ثابت کرسکے، لہٰذاسنگھ پریوار بڑے غور خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ سیکڑوں روزنا مے،ہزاروں ہفت روزہ اخبار و رسائل درجنوں ٹی وی چینل شروع کرنے اور ان پر ہندوتوا کا پرچار کرنے کے بجائے صرف نصابی کتابوں پر یلغار کردو اور نسلوں کو اپنے قبضے میں کرلو لہٰذا ٹاڈانہ پوٹا ، ایودھیانہ متھرا، سنگھ پریوار کا خفیہ ایجنڈا ہے۔ نصابی کتابوں کا شدّھی کرن !اور اس کی ایک جھلک یہ ہے:
(۱) ہندوستان کی غلامی کا دَور انگریزوں کے ساتھ نہیں بلکہ مسلم دَور کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک بنیادی تبدیلی آئندہ تاریخ میں ہوگی۔ یعنی مسلم حکمرانوں کو حملہ آور کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ 
(۲) محمودغزنوی کے تعلق سے پی جی کی سطح کی کتابوں میں مشہور مورّخین کے اس بیان کو حذف کیا جا رہا ہے۔’’محمود ایک بہادر سلطان تھا، عدل و انصاف کا علم بردار تھا، علماء و فضلاء کا مربّی تھا اور وہ ایک اونچے کردار کا مالک تھا۔اس کی جگہ پر محمود غزنوی کو صرف سومناتھ کے مندروں پر حملوں کے پس منظر میں ایک ظالم و جابر حملہ آور کی صورت میں پیش کیا جائے گا۔
(۳) علاؤالدین خلجی کے تعلق سے کے ایم پنکر کی اس رائے کو حذف کیا جا رہا ہے کہ علاؤ الدین خلجی نے ہندوؤں کے مذہبی پیشواؤں کی بڑی عزت و توقیر کی اور جین فرقہ کے کئی پیشواؤں کی پذیرائی کی۔ انہوں نے زمین داری کے سلسلے میں جو اصلاحات نافذ کیں ان پر یہ کہہ کر واویلا مچایا جارہا ہے کہ سلطان کا اصل منشا ہندوزمین داروں پر ظلم کرنا تھا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں زمین و جائداد کی جو اصلاحات نافذ ہیں وہ سلطان خلجی ہی کے ذہن کی اپج ہیں ۔ 
(۴) اِس ملک میں حقیقی تاریخ پڑھانا اور اُس سے طلبہ کی ذہن سازی کرنا اگر مقصد ہوتا تو اُس کیلئے ہمارے تاریخ دانوں نے شیر شاہ سوری کی طرزِ حکومت اور اُ س کی اصطلاحات کونئی نسلوں میں عام کیا ہوتا، کیوں کہ بہت زیادہ تحقیق کئے بغیر اُنھیں معلوم ہوتا کہ صرف پانچ سال اس ملک پر حکومت کرنے والا یہ حکمراں اس ملک میں رائج تحصیل داری اور مجسٹریٹ نظام کا بانی ہے۔ زمین کی پیمائش اور اُس کے کاغذات تیار کرنے کا نظم اسی سلطان کے دماغ کی اُپج تھی۔ آج جس پنچایتی نظام کا بڑا غلغلہ ہے وہ شیر شاہ سوری نے شروع کیا تھا۔سڑکوں اور شاہراہوں کا جال اُسی حکمراں نے بچھایا۔ ۲۵۰۰؍کلومیٹر طویل شاہراہ (ڈھاکہ سے پشاور)بھی اسی بادشاہ نے تعمیر کی اور سب سے اہم بات یہ کہ ملک کی کرنسی کو ’روپیہ‘ نام بھی شیر شاہ سوری نے دیا جو لگ بھگ ۵۰۰؍سال بعد بھی ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، نیپال، انڈونیشیااور ماریشس کی کرنسی ہے۔ 
(۵) سنگھ پریوار کے متعصب مورّخین نشانہ بنانے جارہے ہیں محمد بن تغلق کو۔ یہ سارے مورّ خین اسے ’ایک پاگل بادشاہ‘ ،’پگلا تغلق‘ یا ’مجموعہ اضداد‘ کے القاب سے یاد کرتے ہیں لہٰذا نئی تاریخ میں محمد بن تغلق کے اہم اقدامات جیسے دار الخلافہ کی تبدیلی اور سکّے کی تبدیلی وغیرہ کا ذکر انتہائی غلط طریقے سے کیا جا رہا ہے جبکہ سارے یورپی مورّخین بھی ان اقدامات کی تعریف کر چکے ہیں اور نئے ٹیکس سسٹم کو محمد بن تغلق کی دین بتا چکے ہیں مگر سنگھ پریوار ہمیں اپنی مرضی کی تاریخ پڑھانے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ 
(۶) سنگھ پریوار کے مورّخین اورنگ زیب عالمگیر کے دَور پر کچھ ’ایکسٹرا‘ محنت کر رہے ہیں ۔ دراصل اور نگ زیب سے متعلق انتہائی غلط تاریخ آج بھی یہاں کے نصابی کتابوں میں رائج ہے۔ شیوا جی یو نیورسٹی کی بی اے کی کتاب ’ دی رائز اینڈ فال آف مراٹھا ایمپائر‘میں اور نگ زیب اور دیگر مغل حکمرانوں پر کئی رکیک حملے کئے گئے ہیں ۔نئے تعلیمی نصاب کو مزید زہریلا بنانے کیلئے دویا پتی ٹھا کرے جیسے غیر جانبدار مورّخین کی تحقیقی کتابوں کو نظر انداز کر کے انتہائی متعصب مورّخین جیسے شنکر ڈی نارائن اور جادو ناتھ سرکار کی کتابوں کو شامل کیا جارہا ہے۔
(۷)برِّ صغیر میں دو قومی نظریے کے بانی و نایک دامودرساورکر کی کتابوں کے براہِ راست حوالے گریجویشن کی کتابوں میں شامل ہورہے ہیں ۔ تنگ نظری والے نظریے کے دوسرے مبلغ گولوالکر نے آریائوں کو ملک کا اصل باشندہ ثابت کرنے کی جو مہم شروع کی تھی، اس کی بازگشت موجودہ سرسنچالک کی تقریروں کے حوالے سے طلبہ و نوجوانوں میں دہرائے جاتے ہیں۔ 
(۸)گیارہ جلدوں پر مشتمل سنگھ پریوار کے نظریات کی تشہیر کرنے والی کتاب ’ہندوستانی عوام کی تہذیب اور تاریخ‘ کو بھارتیہ ودیا بھون نے وزارت تعلیم کے توسط سے براہِ راست کئی زبانوں میں شائع کی ہے اور اُسے ’سرکاری‘ کتاب کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔
 (۹) این سی ای آر ٹی کی ۱۸۲؍کتابوں میں اب تک ۱۳۳۴؍ردّو بدل ہوچکے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔ ظاہر ہے یہ ساری تبدیلیاں ہندوتو کے حق میں کی گئی ہیں ۔ 
 (۱۰)چند دہائیوں قبل شہریت نامی مضمون ہوا کرتا تھا۔ اب اُس کو سیاسی سائنس بنادیا گیا۔ ملک بھر میں وہ نویں /دسویں جماعتوں میں پڑھایا جانے لگا ہے۔ اب اُس کے کچھ ابواب چھٹی جماعت ہی میں پڑھائے جانے لگے ہیں ۔ کیوں ؟ بالکل معصوم کورے ذہنوں پر من چاہی اور من گھڑت باتیں لکھی جائیں ۔ چھٹی جماعت کے بچّوں کو یہ پڑھایا جارہا ہے کہ عربوں نے سندھ فتح کرلیا اور اس طرح ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ شروع ہوگئی۔ انصاف کا تقاضا یہ تھاکہ بچّوں کو حقیقت بتائی جاتی کہ سندھ فتح کرنے سے بہت پہلے مسلمان اس ملک میں تجارت کیلئے داخل ہوئے اور اُنھوں نے اپنے حُسن سلوک سے یہاں کے لوگوں کا دل جیتنا شروع کیا، جس کے بعد غیر مسلمانوں کی زندگی اُجالوں سے بھر گئی۔ اُنھوں نے جب یہ خوشگوار تبدیلیاں دیکھیں کہ اسلام میں ذات پات کا کوئی تصوّر نہیں ہے اسلئے مسلمان ’نچلی‘ ذات والوں کے ساتھ بھی ایک ہی برتن میں کھانا کھاتے ہیں ، اُنھیں اپنے گھروں میں بلاتے ہیں ، اُن سے گلے ملتے ہیں تو وہ اسلام سے کافی متاثر ہوئے۔ چھٹی جماعت کے بچّوں کو یہ حقائق بتانے سے اس ملک میں بھائی چارگی کی فضا بن گئی ہوتی مگر وہ کِسے چاہئے؟ اس صورت میں اونچی ذات والوں کے ایجنڈے کا کیا ہوگا؟
دراصل ضرورت اس بات کی ہے ہماری قوم کے ماہرین تعلیم اور دانشور نیز تاریخ سے مکمل واقفیت رکھنے والے افراد سب سے پہلے دستیاب میڈیا کے ذریعہبحث کریں اور دلائل کے ساتھ بتائیں کہ مثلاً آرین بھی اس ملک کے اصل باشندے نہیں ہیں اور انہوں نے یہاں پر بھی زبر دستی قبضہ اور بدھ دھرم کو ختم کرنے کے بعد اپنا دھرم پھیلایا ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ اور نگ زیب نے مراٹھوں ، راجپوتوں اور دکن کی ریاستوں اور پھر اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو رویہّ اختیار کیا وہ کوئی بھی حکمراں ہوتا تو یہی کرتا اور پھر ان سے یہ دریافت کیا جائے کہ اگر اور نگ زیب اسلئے معتوب ہے تو پھر اسی بنیاد پر وہ سمراٹ اشوک کو معتوب کیوں قرار نہیں دیتے ہیں ؟ بلکہ اسی سمراٹ اشوک کی لاٹ کی چکر کو پرچم میں جگہ کیوں دیتے ہیں جس اشوک نے گدّی حاصل کرنے کیلئے اپنے درجنوں بھائیوں کا قتل کیا تھا اور کلنگ کی جنگ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو قتل کیاتھا۔
 تاریخ کو تہس نہس کر کے بچّوں کے معصوم ذہنوں پر تعصب کی کاشتکاری کا کام شروع ہو چکا ہے۔ نئے سرے سے تاریخ مرتّب کرنے میں سنگھ پریوار دن رات ایک کر رہا ہے۔ اور خدشہ یہاں تک پہنچا ہے کہ جس طرح سنگھ پریوار کی تجربہ گاہ یعنی گجرات میں رامائن و مہا بھارت (جی ہاں اردو اسکولوں میں بھی ) لازمی طور پر پڑھایا جا رہا ہے ، وہ سارے ملک کی پالیسی بن جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK