Inquilab Logo Happiest Places to Work

باطن کی اصلاح اور تزکیۂ نفس : روحانی امراض کیلئے دوا ہیں

Updated: July 25, 2025, 3:34 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

انسانی جسم کی طرح روح بھی مختلف اثرات قبول کرتی ہے اور جیسا کہ جسم کو شدید گرمی میں سکون دینے کیلئے اے سی، کولر، پنکھا یا ٹھنڈا پانی درکار ہوتا ہے، ویسے ہی روح کو بھی اپنے مخصوص حالات میں سکون اور راحت کی ضرورت ہوتی ہے۔

Imams and preachers should shed light on internal diseases along with outward rulings. Photo: INN
ائمہ اور خطباء کو چاہئے کہ ظاہری احکام کے ساتھ باطنی امراض پر بھی روشنی ڈالیں۔ تصویر: آئی این این

انسانی جسم کی طرح روح بھی مختلف اثرات قبول کرتی ہے اور جیسا کہ جسم کو شدید گرمی میں سکون دینے کیلئے اے سی، کولر، پنکھا یا ٹھنڈا پانی درکار ہوتا ہے، ویسے ہی روح کو بھی اپنے مخصوص حالات میں سکون اور راحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ جسم کی گرمی محسوس ہوتی ہے، اس لئے ہم فوراً اس کا علاج ڈھونڈتے ہیں، لیکن روح کی گرمی نظر نہیں آتی اسلئے اکثر اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جب انسان برے اعمال، گناہوں اور عبادات سے غفلت میں ڈوب جاتا ہے تو روح پر ایک نادیدہ گرمی طاری ہو جاتی ہے جو روحانی بے چینی، دل کی سختی، بے سکونی اور بے اطمینانی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ گویا روح بھی تپتی ہے، سلگتی ہے، اور اگر اسے نظرانداز کیا جائے تو وہ بیمار پڑ جاتی ہے۔ جیسے جسمانی بیماری کا تسلسل انسان کو مفلوج کر دیتا ہے، ویسے ہی روحانی بیماری کا تسلسل انسان کو اخلاقی، ذہنی اور حتیٰ کہ معاشرتی لحاظ سے بھی ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص روح کی پروا کئے بغیر صرف جسم کی پرورش کرتا رہے تو وہ ایک ایسے خوبصورت برتن کے مانند ہوگا، جو بظاہر مکمل ہے مگر اندر سے خالی ہے۔ اس لئے ایک باشعور انسان پر لازم ہے کہ وہ جسم اور روح دونوں کی ضروریات کو پہچانے اور دونوں کی گرمیوں کیلئے مناسب ٹھنڈک کا انتظام کرے۔ 
جس طرح جسمانی بیماریوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، کسی کو بخار ہوتا ہے، کسی کو شوگر یا بلڈ پریشر، تو ہر مرض کا علاج بھی مختلف دوا، پرہیز اور معالج کے مطابق ہوتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں کی بھی اپنی نوعیت ہوتی ہے اور ہر بیماری کا الگ علاج ہے۔ اگر کوئی ہر جسمانی مرض کے لئے ایک ہی دوا استعمال کرے تو وہ فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن سکتی ہے؛ بعینہ اگر روحانی امراض کے لئے مخصوص علاج اختیار نہ کیا جائے تو روح کو صحت نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر ’’تکبر‘‘ کا علاج ’’ تواضع‘‘ میں ہے، ’’حسد‘‘ کا علاج ’’ خیر خواہی‘‘ میں ہے، ’’ریا کاری‘‘ کا علاج ’’اخلاص‘‘ میں ہے۔ 
قرآن و سنت میں روحانی امراض کی تشخیص بھی ہے اور ان کا علاج بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقیناً جس نے نفس کو سنوار لیا، وہ کامیاب ہوگیا، اور جس نے اس کو خاک میں ملادیا (یعنی نفسانی خواہشات سے آلودہ رکھا )، وہ گھاٹے میں رہا۔ ‘‘ (الشمس:۹۔ ۱۰) یہاں یہ واضح اشارہ ہے کہ نفس کی گندگی کو دور کرنا ضروری ہے اور اس کا تزکیہ ایک شعوری عمل ہے، جو مختلف طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے۔ جیسے طبیب جسم کی بیماری کی نوعیت کو دیکھ کر دوا تجویز کرتا ہے، ویسے ہی مربی اور شیخ روحانی امراض کے مطابق تربیت و علاج تجویز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ افسوسناک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں کو اس حقیقت کا شعور ہی نہیں کہ ہم روحانی طور پر بیمار ہیں۔ دل کی سختی، نیت کا کھوٹ، اعمال میں دکھاوا، دوسروں کے لئے بغض و حسد، عبادات سے بیزاری اور گناہوں میں لذت جیسے امراض ہمارے اندر گھر کئے ہوتے ہیں، لیکن ہم انہیں معمول کا حصہ سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ جیسے کوئی مریض اگر اپنی بیماری کو بیماری نہ سمجھے تو وہ علاج کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرے گا، بالکل ویسے ہی روحانی بیماری کا سب سے پہلا نقصان یہ ہے کہ انسان کو اپنی بیماری کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہی غفلت رفتہ رفتہ انسان کو باطن کی ایسی تاریکیوں میں دھکیل دیتی ہے جہاں سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے، اور دل کی حالت اس برتن جیسی ہو جاتی ہے جس پر زنگ چڑھ گیا ہو، جس کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا:
’’(ایسا) ہرگز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اَعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے۔ ‘‘ (المطففین:۱۴)
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے، پھر اگر اس سے باز آگیا اور توبہ کرلی تو دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر اسی گناہ کو بار بار کرتا رہا تو زنگ اس کے پورے دل پر چھاجاتا ہے۔ (سنن ترمذی)
 اس اہم اور نازک مسئلے کے حل میں خطباء کرام کا کردار نہایت اہم اور مؤثر ہو سکتا ہے، کیونکہ منبر و محراب سے نکلنے والی آواز دلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اگر خطباء اپنے خطابات میں صرف ظاہری احکام و مسائل تک محدود رہنے کے بجائے روحانی امراض پر بھی روشنی ڈالیں، اور قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا علاج پیش کریں، تو عوام کے دلوں میں ایک روحانی بیداری پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر منبر سے روح کی صفائی، باطن کی اصلاح اور تزکیۂ نفس کا پیغام سنجیدگی سے دیا جائے تو یقیناً معاشرہ نہ صرف ظاہری طور پر نیک بنے گا بلکہ باطنی طور پر بھی اللہ کے قریب تر ہوتا جائے گا، اور یہی حقیقی کامیابی ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK