این ای پی (نئی تعلیمی پالیسی) کو نافذ ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں ۔ اس کے نفاذ کے وقت کہا جا رہا تھا کہ اس کی وجہ سے ملک کا تعلیمی نظام ایسی اصلاحات سے ہمکنار ہوگا جو آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئیں ، یہ نوعیت کے اعتبار سے جدید ہوگی، اکیسویں صدی کے اہداف سے ہم آہنگ ہوگی اور اس میں سب کی شمولیت کا جوہر ہوگا۔
این ای پی (نئی تعلیمی پالیسی) کو نافذ ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں ۔ اس کے نفاذ کے وقت کہا جا رہا تھا کہ اس کی وجہ سے ملک کا تعلیمی نظام ایسی اصلاحات سے ہمکنار ہوگا جو آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئیں ، یہ نوعیت کے اعتبار سے جدید ہوگی، اکیسویں صدی کے اہداف سے ہم آہنگ ہوگی اور اس میں سب کی شمولیت کا جوہر ہوگا۔ بہت سی دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ تدریسی عمل کو طلبہ کے نقطہء نظر سے، زیادہ دلچسپ بنایا جائیگا، پانچویں تک مادری زبان میں تعلیم دی جائیگی، دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحان کے بجائے پانچویں ، آٹھویں ، گیارہویں اور پھر پندرہویں کا نظام (5+3+3+4)متعارف کیا جائیگا، نصاب کا بوجھ کم کیا جائیگا، چھٹے درجے سے ووکیشنل ٹریننگ کا آغاز ہوگا، تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا ۶؍ فیصد کیا جائیگا اور ’’پرکھ‘‘ نام سے ایک نیشنل اسسیس منٹ سینٹر قائم کیا جائیگا۔
پانچ سال بعد کیا ہم ان اہداف کو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں ؟ اس سوال کے جواب سے ہر وہ شخص واقف ہے جو تعلیم سے دلچسپی رکھتا ہے۔ اب تک ۲۸؍ میں سے صرف ۱۶؍ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ۸؍ علاقوں نے اسے جزوی طور پر نافذ کیا ہے۔ جب اقدامات ہی نہ ہوئے ہوں ، پالیسی کو زمین پر اتارنے کی لگن ہی مفقود ہو، اس کے اہداف کو پانے کا عزم بھی دکھائی نہ دیتا ہو اور عملاً تعلیم کو ترجیح مانا ہی نہ گیا ہو تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ اس میں نتیجہ خیز پیش رفت ہوگی؟ پانچ سال کا عرصہ اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ اب تک اس پالیسی کے ابتدائی نتائج برآمد ہونے کا آغاز ہوجانا چاہئے تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ ۵؍ سال میں نئی پالیسی کا شور زیادہ سنائی دیا، کلاس رومس میں مثبت تبدیلی کی روشنی کم دکھائی دی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی میں وِژن تو تھا مگر مالی تعاون اور دیگر وسائل کی فراہمی محدود ہونے کے سبب اتنی اچھی پالیسی نئے امکانات کی معدومی کا ذریعہ (لوسٹ اپورچونٹی) بنتی جارہی ہے۔ ملک کے پندرہ لاکھ سرکاری اسکولوں میں اس کا نفاذ نجی اسکولوں کیلئے نمونہ بن سکتا تھا۔ بعض معاملات میں شہروں کے بڑے اسکولوں نے موثر پیش رفت کی لیکن ان کی حیثیت استثنائی ہے۔ یہ اسکول اس لئے پیش رفت کرپائے ہیں کہ اُن کے ہاں وسائل کی کمی نہیں ہے۔ مسئلہ،سرکار کے مکمل یا جزوی تعاون سے چلنے والے اسکولوں کا ہے۔ این ای پی کو بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ نافذ کیا گیا تھا مگر وسائل کی فراہمی میں جوش و خروش نہیں ہے۔ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ آئے دن اخبارات میں جگہ پاتا رہتا ہے۔ جب اساتذہ ہی کم ہوں گے تو طلبہ کی پڑھائی کے ساتھ انصاف کیسے کیا جاسکتا ہے؟ این ای پی کے سلسلے میں سرکار میں کتنا سیاسی عزم پایا جاتا ہے یہ سمجھنے کیلئے یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ سرکار نے جی ڈی پی کے ۶؍ فیصد کا تہیہ کیا تھا مگر ۲۵۔۲۴ء کے بجٹ میں صرف ۲ء۹؍ فیصد ہی مختص کیا گیا۔
زمین پر مضبوطی سے قدم جمائے بغیر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے چلنا خود کو دھوکہ میں ڈالنے جیسا ہے۔ ہم نے این ای پی کیلئے سازگار ماحول تیار کیا نہ ہی ضروری بجٹ دیا۔ نہ تو اساتذہ کی خاطر خواہ ٹریننگ کا انتظام کیا گیا نہ ہی ووکیشنل کورسیز کیلئے جس قدر رہنمائی کی جانی چاہئے تھی، کی گئی۔ کیا پانچ سال کی تکمیل پر اس پالیسی کے نفاذ کو سمجھنے کیلئے پورے ملک کا سروے نہیں کیا جانا چاہئے؟