بچپن میں امّی کی مار سبھی کھاتے ہیں، یہ کہانی پڑھ کر آپ کو بھی بچپن کی پٹائی یاد آجائے گی۔
انوکھی پٹائی کا یہ انوکھا واقعہ ہمیں آج سے تقریباً دس سال قبل پیش آیا تھا۔ اس وقت سے یہ ایک پل کیلئے بھی جلایا نہیں جاتا کیونکہ پٹائی تو بہرحال پٹائی تھی مگر ایک ماں کی پوری ممتا اور ساری شفقت بھی اس پٹائی کے ساتھ ہی ہمیں ملی تھی۔
بچپن میں مجھ میں اور بھائی جان میں برابر ٹھنی رہتی تھی۔ ہم دونوں کی عمروں میں صرف ڈھائی سال کا فرق تھا۔ ان کے ’بڑے پن‘ کی میں ذرہ برابر بھی پروا نہیں کرتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ غرض پڑنے پر انہیں مٹھاس بھرے لہجے میں نہ صرف ’بھائی جان‘ کہہ کر پکارتا تھا بلکہ ایک سعادتمند بھائی کی طرح اُن کے ہر حکم کی تعمیل بھی کیا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر شہر میں اگر کوئی سرکس آگیا ہے اور دیکھنے کی خواہش بھی دل میں سلگ رہی ہے اور ایسی صورت میں بھائی جان کی مدد کے بغیر یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی تو سمجھئے اس وقت بھائی جان کے سامنے اپنی سعادتمندی اور فرمانبرداری کا وہ نمونہ پیش کرتا کہ اس کی مثال شاید ہی دنیا کی کسی تاریخ میں مل سکے۔ اور بھائی جان؟ کیا بتاؤں؟ بس بھائی جان کی حیثیت اُس وقت ایک گھٹیا قسم کے بلیک میلر سے زیادہ نہ ہوتی نتیجہ کے طو رپر اپنے حصے کی مٹھائیاں اکثر ان کی بلیک میلنگ کی نذر ہوجاتیں بعض دفعہ تو ان کی بڑی ظالمانہ قسم کی دھمکیوں کے ڈر سے پورے کے پورے حصے سے ہاتھ دھو لینا پڑتا۔ میری غرض مجھے اپنے ہی حصے کی مٹھائی کے لئے ان کی خوشامد کرنے پر مجبور کر دیتی۔ کبھی تو ڈھیر ساری خوشامد کرا کے مَن جاتے مگر اکثر گھنٹوں خوشامد کے باوجود اُن کے کانوں پر جوں نہ رینگتی۔ پھر میں کھسیانے انداز میں جھلا کر کہتا ’’اچھا! اب کی بار جب مجھے مٹھائی ملے گی تو تمہیں ٹھینگے دکھا دکھا کر کھاؤں گا۔‘‘
’’پھر دیکھو لینا سرکس!‘‘ ان کا دھمکی آمیز جواب ملتا اور مجھے آئندہ ملنے والی مٹھائی دینے کا مجبوراً وعدہ کرنا پڑا۔
یقین کیجئے، اُن دنوں کوئی اگر مجھ سے پوچھتا کہ میرا سب سے بڑا دشمن کون ہے تو مَیں بے دھڑک بھائی جان کا نام بتا دیتا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ صرف میں ہی بھائی جان کی خوشامدیں نہیں کیا کرتا تھا بلکہ مجھے بھی کئی بار ایسا موقع ملتا جب میں اُن سے خوشامدیں کرواتا۔ آہا! نہ پوچھئے کہ اُن سے خوشامدیں کرانے میں مجھے کتنا لطف آتا تھا! بس یہی جی چاہتا تھا کہ ایک ذرا سی بات کے لئے وہ کسی مظلوم رعایا کی طرح گھنٹوں گڑگڑاتے رہیں اور میں کسی ظالم بادشاہ کی طرح ان کی فریاد اَن سنی کرتا رہوں۔
یہ تمام باتیں تو خیر ان کی یا میری غرض کی ہیں، لیکن وہ بات جو ہمارے آپس میں کھنچاؤ کا سبب بنی رہتی تھی اور جس کے لئے ہمیں مار کھانی پڑی تھی، یہ ہے کہ بھائی جان کو ہمیشہ چھیڑ خانی سوجھا کرتی تھی ذرا سا موقع ملا اور انہوں نے مجھے اپنی زبان یا ٹھینگا دکھا دیا یا منہ چِڑا دیا اور کچھ نہیں سوجھا تو میری صورت میں عیب ہی نکالنا شروع کر دیا۔ کبھی میری صورت کو بندر کی صورت سے تشبیہ دی جاتی، کبھی میری ناک پکوڑا ہوجاتی، کبھی کان خرگوش کے کان ہوجاتے۔ میں بھی کیوں چوکنا، میں انہیں کارٹون، ہنکی ڈَنکی وغیرہ کے خطابوں سے نوازتا۔ پھر زبانی تُو تُو مَیں مَیں شروع ہوجاتی اور اگر باجی اور امی کی نظروں سے اب بھی بچے رہ گئے تو ہاتھا پائی اور دھینگا مشتی کی بھی نوبت آپہنچتی۔ اور کمرہ پہلوانوں کا اکھاڑہ معلوم ہونے لگتا۔
ایک دن کی بات ہے امتحان قریب تھا۔ میں اور بھائی جان ڈرائنگ روم میں بیٹھے تاریخ و جغرافیہ کی کتابوں سے مغز ماری کر رہے تھے۔ گھنٹہ بھر گزر گیا تھا ہم دونوں گم صم اپنی اپنی کتاب پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ میں دل ہی دل میں خوش تھا کہ چلو بھائی جان آج کچھ ’’سدھرے‘‘ نظر آرہے ہیں ورنہ اب تک کئی بار ٹھینگے بازی وغیرہ جس کی شروعات بھائی جان ہی کی جانب ہوتی، چل چکی ہوتی مگر بُرا ہو میری خوش فہمی کا۔ بھائی جان بھلا اتنی دیر تک نچلا کیوں کر بیٹھ سکتے تھے۔ ان کی زبان ہمیشہ مجھے چڑانے کے لئے ہر وقت کھجلاتی رہتی تھی۔ وہ اچانک مجھے ’’نک چڑھا‘‘ کہہ بیٹھے۔ مَیں اس وقت پڑھنے کے موڈ میں تھا اس لئے اَن سنی کر دی۔ انہوں نے پھر ’نک چڑھا‘ کہا۔ میں نے پھر درگزر سے کام لیا، مگر انہوں نے ’نک چڑھا‘ کی جیسے رَٹ لگا رکھی تھی۔ جب تک میں نے اپنی غصیلی آنکھوں سے گھور کر نہیں دیکھا وہ ’نک چڑھا، نک چڑھا‘ رٹتے رہے، جیسے پانی پت کی دوسری لڑائی کی تاریخ رَٹ رہے ہوں۔ میرے گھورنے پر وہ خاموش تو ہوگئے مگر اُن کے ہونٹوں پر مذاق اُڑانے والی مسکراہٹ نے میرے تن بدن میں چنگارہاں سی بھر دیں۔ مجھے بہت طیش آیا، مگر کچھ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور کتاب پر نگاہیں جما دیں۔ مگر بھائی جان نے تو مجھ سے لڑنے کی ٹھان لی تھی۔ اب انہوں نے ’نک چڑھا‘ کو ایک گیت بنا لیا۔ ’’ڈم ڈم نک چڑھا‘‘ ’’نک چڑھا‘‘ اور ’’ڈم ڈم‘‘۔ ’’ڈم ڈم‘‘ کو اس طرح سُر اور تال ملا کر گانے لگے جیسے وہ کسی فلمی گیت کا خوبصورت مکھڑا ہو۔ میرے اندر کی چنگاریوں نے شعلے کا روپ اختیار کر لیا۔ بس آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ بھائی جان پر جھپٹ پڑا اور تڑاخ سے ایک چپت اُن کی کھوپڑی پر جما دی۔ اس پر جواباً میرے گال پر اُن کا طمانچہ جو پڑا تو میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ دودھیا بلب کی روشنی میں بہت سارے جگنو نظر آنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد جب مزاج ذرا ہلکا ہوا تو بھائی جان ایک پاؤں دروازے کے باہر نکال چکے تھے۔ میں دوبارہ جھپٹا اور کمرے کے اندر انہیں کھینچ کر اُن سے لپٹ پڑا۔ پھر ایک دوسرے کو پٹخ دینے کی جدوجہد میں دونوں بیک وقت فرش پر آرہے۔ ساتھ ہی ہم دونوں کی چیخ سے کمرہ گونج اٹھا۔ دونوں کے سَر زور کے ساتھ فرش سے ٹکرائے تھے۔ مجھے تو ایک بار پھر کمرے میں جگنو اُڑتے ہوئے معلوم ہونے لگے۔ پھر ہم میں سے کوئی اُٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ امی جان ایک بید کی چھڑی کے ساتھ نمودار ہوئیں اور ہماری خیریت پوچھے بغیر اسے ہم پر باری باری برسانے لگیں.... یقین مانئے! ہم اُس وقت حیران تھے۔ نہ سَر کی چوٹ کا احساس باقی رہا تھا اور نہ جسم پر تڑ تڑ برستی چھڑی کا۔ ہم تو بس حیرت سے امی جان کو تک رہے تھے، جنہوں نے آج تک ہمیں مارنا تو درکنار کبھی ڈانٹ بھی نہیں پلائی تھی۔ کبھی کبھی ہماری لڑائی جب حد سے زیادہ انہیں کھلنے لگتی تو بڑی سنجیدگی سے اور شفقت آمیز لہجے میں سمجھایا کرتیں کہ ہم سگے بھائی ہیں ہمیں لڑنا بھڑنا ہرگز نہیں چاہئے اس کے بجائے ہمیں گھل مل کر میل محبت سے رہنا چاہئے اور بس! لیکن آج امی جان کے اس رویہ پر میں اس قدر حیرت میں پڑ گیا کہ کچھ سوچنے کی قوت بھی گم ہوگئی۔ ہم دونوں بُت کی طرح گم صم امی کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
امی نے ہمیں جی بھر اس طرح پیٹا جیسے کوئی شدید بھوک کی حالت میں اپنی مرغوب ترین غذا کھاتا ہو۔ لیکن اس پر بھی ہماری آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا۔ ہمیں پیٹ چکنے کے بعد وہ چھڑی پھینک کر وہیں بیٹھ گئیں اور لگیں سسک سسک کر رونے۔ اِس پر ہم مزید حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے اور پھر ہماری آنکھوں کے سوتے بھی پھوٹ پڑے۔ پٹائی کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف امی کو روتے دیکھ کر۔ پھر یکایک انہوں نے ہم دونوں کو چمٹا لیا اور کہنے لگیں، ’’میرے بچّو! میں نے ناحق تمہیں پیٹا.... آہ! جی چاہتا ہے اپنے ہاتھ کاٹ کر پھینک دوں۔ اُف! تمہارے جسموں پر کیسے کیسے نشان پڑ گئے ہیں سُرخ سُرخ نیلے نیلے۔ ہائے! مجھے کس شیطان نے بہکایا تھا۔ آہ! میں کتنی ظالم ہوں! ماں تو بچے کو صرف پیار دیتی ہے، پیار! نہ کہ مار!‘‘ وہ درد بھرے لہجے میں بولے جا رہی تھیں، ’’مجھے معاف کر دو میرے لال، اب کبھی تمہیں نہیں پیٹوں گی۔ کبھی نہیں۔‘‘ پھر انہوں نے باری باری ہمیں پیار کیا۔ مار اور پیار کے عجیب سنگم نے ہماری آنکھوں کو بھی گنگا جمنا کا سنگم بنا دیا تھا۔
’’امی جان! معاف کر دو ہمیں۔‘‘ مَیں نے اور بھائی جان نے کان پکڑ کر باری باری معافی مانگی، ’’توبہ کرتے ہیں۔ اب ہم آپس میں کبھی نہ لڑیں گے۔‘‘ امی کچھ نہ بولیں۔ چپ چاپ کمرے سے باہر چلی گئیں۔ امی جان کے جانے کے بعد میری اور بھائی جان کی نگاہیں آپس میں ٹکرائیں۔ پتہ نہیں انہوں نے میری آنکھوں میں کیا دیکھا تھا۔ ویسے بھائی جان کی آنکھیں مجھے عجیب سی لگیں۔ سب دن سے مختلف۔ ایسا محسوس ہوا جیسے ان کی آنکھوں میں پیار، شفقت اور بھائی چارگی کی اَن گنت لہریں مچل رہی ہوں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اچانک مجھے لپٹا لیا اور اُسی وقت ہم دونوں نے کبھی نہ لڑنے کی قسم کھائی۔
اب بھی کبھی اس واقعہ کا ذکر امی کے سامنے آتا ہے تو وہ کھکھلا کر ہنس پڑتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’تمہاری وہی پٹائی میری اصل محبّت اور ممتا تھی۔‘‘