Inquilab Logo Happiest Places to Work

راہل کی جے جے کار اور بہار

Updated: August 25, 2025, 2:02 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بہار میں ، جہاں کانگریس کی زمین پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہے اور پارٹی کا ڈھانچہ بھی برسوں کی خستہ حالی کا شکار ہے، راہل گاندھی کے ذریعہ نکالی گئی ووٹر ادھیکار یاترا کو ملنے والی پُرجوش اور پُرزور حمایت غیر معمولی واقعہ ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بہار میں ، جہاں  کانگریس کی زمین پہلے کی طرح مضبوط نہیں  ہے اور پارٹی کا ڈھانچہ بھی برسوں  کی خستہ حالی کا شکار ہے، راہل گاندھی کے ذریعہ نکالی گئی ووٹر ادھیکار یاترا کو ملنے والی پُرجوش اور پُرزور حمایت غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس کامیابی میں  آر جے ڈی کے حامیوں  کی فعال شرکت کا بڑا دخل ہے اور یہ امکان صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس کا سیاسی فائدہ دونوں  ہی پارٹیوں  کو ملے گا جو بہتر انتخابی نتائج میں  تبدیل ہوئے بغیر نہیں  رہ سکے گا۔ یہ بھی طے ہے کہ بہار میں  کانگریس کے احیاء میں  یہ یاترا اہم کردار ادا کریگی۔ یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ بہار میں  کانگریس کا بلا شرکت غیرے اقتدار ۱۹۹۰ء میں  ختم ہوا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ساڑھے تین دہائیوں  کا طویل دور گزر چکا ہے اور کانگریس کیلئے ایسی ریاست میں  جہاں  اس کیلئے بہار ہی بہار تھی، تیس پینتیس سا ل سے خزاں  ہی خزاں  چھائی ہوئی ہے۔ اس کے آخری وزیر اعلیٰ جگن ناتھ مشرا تھے جو تین بار وزیر اعلیٰ رہے۔ ان کی تیسری اور آخری میعاد محض چورانوے (۹۴) دن تھی۔ 
 اس کے بعد کانگریس کا سورج غروب ہوگیا، پھر کبھی لالو وزیر اعلیٰ بنے اور کبھی نتیش کمار، جو اب بھی اس منصب پر فائز ہیں ۔ کانگریس کے طویل دور اقتدار میں  اس کے کم و بیش چودہ (۱۴) وزرائے اعلیٰ ہوئے جن میں  سے ایک عبدالغفور بھی تھے۔ ۲۰۰۴ء میں  اپنے انتقال سے قبل عبدالغفور مرکزی کابینہ میں  بھی شامل کئے گئے تھے۔ خیر، عرض مدعا یہ ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت عوام کے اعتماد سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کی بحالی کیلئے اسے برسوں  انتظار کرنا پڑتا ہے، اس کے بعد بھی اقتدار میں  واپسی کی ضمانت نہیں  ملتی۔ عوامی فیصلوں  کو سمجھنا جتنا آسان ہے اتنا مشکل بھی ہے۔۱۹۹۰ء تک کانگریس کو مسلسل نوازنے والے بہار کے رائے دہندگان نے جب منہ موڑا تو بھلے ہی اسے از سر نو اقتدار نہیں  سونپا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کو بھی قدم مضبوط نہیں  کرنے دیئے۔ بہار کی تاریخ یا ملک کی تاریخ لکھنے والا مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ مودی دور میں  ملک کی اکثر ریاستوں  میں  بی جے پی کے سامنے کسی بھی پارٹی کا چراغ جلنا نہایت مشکل تھا اس کے باوجود بی جے پی کا ایک بھی وزیر اعلیٰ بہار میں  نہیں  ہوا، ۲۰۲۰ء میں  ۷۷؍ سیٹوں  کے ساتھ اسے ریاست کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بننے کا اعزاز تو مل گیا،مگر وزارت اعلیٰ نہیں  ملی۔ اسی منصب کے حصول کیلئے نتیش کمار کااثرورسوخ کم کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ منصب جتنا قریب آگیا تھا اب اُتنا ہی دور ہوتا معلوم ہورہا ہے۔ 
 کانگریس کو ۲۰۲۰ء میں  صرف ۱۹؍ سیٹوں  پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ اب ’’ووٹ چوری‘‘ کا مدعا عوام کے دل کی گہرائیوں  میں  اترا ہوا محسوس ہورہا ہے چنانچہ  کانگریس کے روشن امکانات سے یہ اُمید پیدا ہورہی ہے کہ پارٹی اپنی سیٹوں  کو ۴۰؍ تک بھی پہنچا سکتی ہے اور ۷۰؍ تک لے جانے میں  بھی کامیاب ہوسکتی ہے بشرطیکہ پوری پارٹی جی جان سے بہار جیتنے کیلئے سرگرم ہو اور اخیر تک سرگرم رہے تاکہ راہل کی مہم کو بھنانے کی کوشش میں  کوئی کسر باقی نہ رہے۔ راہل جتنی محنت کررہے ہیں  اگر اُتنی ہی محنت پارٹی کے دیگر وابستگان نے بھی کی اور آر جے ڈی نیز کمیونسٹ پارٹیوں  کے ساتھ سب مل کر شاندار جیت کی راہ ہموار کرتے رہے تو  کایاپلٹ ہوسکتی ہے۔ اس سے کانگریس کو بہار میں  نئی طاقت ملے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK