منگل (۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء) کو پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملہ لرزہ طاری کرنے والی واردات ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی۔
EPAPER
Updated: April 24, 2025, 4:25 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
منگل (۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء) کو پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملہ لرزہ طاری کرنے والی واردات ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی۔
منگل (۲۲؍ اپریل ۲۰۲۵ء) کو پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملہ لرزہ طاری کرنے والی واردات ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی۔ اب سے پہلے غالباً کبھی نہیں ہوا تھا مگر اس بار سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اہل کشمیر کی مہمان نوازی دور دور تک مشہور ہے۔ اس جنت ِ ارضی کی سیرسے جو بھی لوَٹتا ہے، اُن کی مہمان نوازی اور حسن اخلاق کی ستائش ہی کرتا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اندرون ِ و بیرون ملک کے ہر سیاح سے نہایت خندہ پیشانی سے ملنے والے خوب سیرت لوگوں کی خوبصورت وادی میں ایسے خوفناک عناصر آدھمکیں گے جو کشمیر کی برسہا برس کی تہذیبی اور اخلاقی روایات کے چیتھڑے اُڑا دیں گے۔
اِس خونیں واردات کو انجام دینے والے کون ہیں یہ تفتیش کے ذریعہ ہی معلوم ہوسکے گا مگر جو بھی ہیں وہ نہ تو اسلام کی تعلیمات سے آشنا ہیں نہ ہی خود کو انسان کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے ہنستی کھیلتی زندگیوں کے چراغ گل کئے ہیں ، بیک وقت ۲۸؍ خاندانوں کو غیر معمولی صدمے سے دوچار کیا ہے، ملک کے ایک ارب چالیس کروڑ شہریوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنے کی سازش اور ملک کی امن و آشتی کی فضا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
انسانیت کے یہ دشمن کشمیر کے بھی دوست نہیں ہیں کیونکہ سیاحت اِس خطۂ ارض کی اہم صنعت ہے اور اِنہوں نے سیاحوں کو موت کے گھاٹ اُتار کر اس اہم صنعت کیلئے مسائل کھڑے کردیئے ہیں ۔ سوچئے تو ذہن ماؤف ہوجاتا ہے کہ متوفین کے خاندانوں میں کیسا کہرام مچا ہوگا، متوفین میں کون کس خاندان کیلئے کیا تھا، کتنی آرزوؤں کا پروردہ تھا اور کتنی تمناؤں کا مرکز تھا، اس کا صحیح اندازہ کبھی نہیں لگایا جاسکتا۔ ان میں ایک نیوی آفیسر شامل ہے جس کی شادی کو ایک ہفتہ بھی پو را نہیں ہوا تھا۔ ایک باپ اور بیٹا بھی ہے جبکہ ماں حملے سے بچ گئیں ۔ کشمیر جاتے وقت وہ کتنے خوش رہے ہوں گے اور اب اس خاتون کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی!
پہلگام کے متوفین کے بارے میں جس قدر اطلاعات موصول ہوئی ہیں ، اُن پر سوچتے رہئے اور ماتم کرتے رہئے، یہ واردات اتنی بزدِلانہ ہے کہ اس کی مذمت کیلئےالفاظ ساتھ دینے سے قاصر ہیں ۔ اگر حالات جلد معمول پر آجائیں تب بھی ممکن ہے کہ یہاں کی سیاحت جلد معمول پر نہ آ سکے، تب تک اُن خاندانوں کا کیا ہوگا جو سیاحوں کی خدمت کے ذریعہ اپنی روزی روٹی چلاتے ہیں ؟ موسم گرما میں سیاحوں کی آمد اور اس کے سبب معاشی سرگرمیاں عروج پر رہتی ہیں ۔ اس واردات نے کشمیر کو معاشی نقصان بھی پہنچایا ہے۔
چونکہ کشمیر مرکز کے زیر انتظام ہے اس لئے مرکزسے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اس قتل عام کے ذمہ دارو ں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گا۔ اِس وقت پورے ملک کو غیر معمولی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ یہی اُن بے گناہوں کے حق میں سچا خراج عقیدت ہوگا جو ابدی نیند سوگئے۔ یہ وقت ہے کہ پورا ملک سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے۔ اس وقت، سیاسی لیڈروں اور اُن کے حامیوں کو ہر طرح کے امتیازات سے بالاتر ہوکر فرقہ وارانہ فضا کے تحفظ کی فکر کرنی چاہئےکہ اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اپنےہی درمیان دیواریں کھڑی کرنے سے ہم، دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہمارا اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔