نقل وطن کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ زمانۂ قدیم سے ایک ملک یا خطے کے لوگ دوسرے ملک یا خطے کا رُخ کرتے آئے ہیں تاکہ روزگار کے مواقع اور بہتر معیار ِ زندگی میسر آئے۔
نقل وطن کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ زمانۂ قدیم سے ایک ملک یا خطے کے لوگ دوسرے ملک یا خطے کا رُخ کرتے آئے ہیں تاکہ روزگار کے مواقع اور بہتر معیار ِ زندگی میسر آئے۔ مشہور ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ نقل وطن کرنے والے، خواہ وہ کہیں کے ہوں اور کہیں جا بسے ہوں، جس ملک میں رہتے ہیں اپنی محنت، ذہانت، صلاحیت اور علم سے اُس دوسرے ملک کو فائدہ پہنچاتے ہیں اس لئے نقل وطن کا رجحان کبھی موضوع نہیں بنا مگر سیاست جو کرے کم ہے۔ حالیہ برسوں میں اسے سنگین عالمی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ سیاست نے مقامی آبادی میں یہ احساس پیدا کردیا ہے کہ بیرونی لوگ اُن کے وسائل پر قابض ہورہے ہیں، اُن کیلئے مسائل پیدا کررہے ہیں اور اُن کی تہذیب و تمدن پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
اس احساس کو پوری طرح خارج نہیں کیا جاسکتا مگر پوری طرح قبول بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ حالیہ دہائیوں میں اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ گلوبلائزیشن یا عالم کاری کے بعد مْختلف ملکوں نے دوسرے ملکوں سے استفادہ کرتے ہوئے وہاں کے ہنرمندوں، خدمات فراہم کرنے والوں اور تعلیم یافتہ با صلاحیت افراد کیلئے اپنے دروازے کھولے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۹۰ء کے مقابلے آج، عالمی سطح پر مہاجرین کی تعداد کم و بیش دو گنا ہوگئی ہے۔ کسی ملک میں اگر ۱۹۹۰ء میں ۱۸؍ فیصد مہاجرین تھے تو اب اُن کی تعداد ۳۰؍ فیصد ہوگئی، کہیں ۸؍ فیصد لوگ تھے تو اب اُن کی آبادی ۲۵؍ فیصد ہوگئی ہے۔
ہندوستانی شہریوں نے جن ملکوں میں بود و باش اختیار کی، اپنی محنت اور صلاحیت کے گل کھلائے اور وہاں کی معیشت کو فائدہ پہنچایا۔ اس کا اعتراف اُن تمام ملکوں کو ہے جہاں ہندوستانی شہری آباد ہیں۔ سیاست جو کھیل کھیل رہی ہے اُس کے تحت پرائے ملک کو وطن ثانی بنانے والوں اور غیر قانونی طور پر رہنے والوں میں فرق کی لکیر کو دھندلا کردیا گیا ہے۔ اب اُن لوگوں کو بھی متہم کیا جارہا ہے جو قانونی طور پر رہتے آئے ہیں اور جن کی دوسری نسل وہیں پیدا ہوئی اور پروان چڑھ رہی ہے۔ فرق کی لکیر کے دھندلا ہونے سے ہر ملک میں بیرونی ملکوں کے باشندوں کے لئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ٹرمپ نے اسے انتخابی موضوع بنا کر اور پھر غیر معمولی سیاسی مسئلہ بنا کر دیگر ملکوں کو بھی اس کے تئیں حساس بنادیا اور دھیرے دھیرے نہیں بلکہ بہت تیزی سے دیگر ممالک بھی غیر ملکی شہریوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جیسے وہ بوجھ ہوں، ایسا بوجھ جس سے نجات پانا ضروری ہو۔ سیاسی جماعتیں امریکہ میں اس موضوع کی ’’کامیابی‘‘ اور ٹرمپ کے حق میں سودمند ثابت ہونے کا ’’کرشمہ‘‘ دیکھ چکی ہیں اس لئے وہ بھی سمجھ رہی ہیں کہ اس موضوع میں کافی دم ہے۔
اس رجحان کی بنیاد خود غرضی ہے مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے اور سیاست کو کون سمجھا سکتا ہے۔ اس رجحان میں قدرتی وسائل کو ذاتی وسائل سمجھنے کا عنصر بھی شامل ہے۔ خدا کی زمین سب کیلئے ہونی چاہئے مگر سمجھنے والوں کا رویہ ایسا ہے جیسے زمین جو کچھ اُگاتی ہے وہ اُن کی محنت کا ثمرہ ہے اور آسمان جو پانی برساتا ہے یا جو چشمے اُبلتے ہیں یا جو ہوا چلتی ہے وہ اُن کے زورِ بازو کا نتیجہ ہے۔ جب اقتدار کے ایوانوں سے خود غرضی کو پروان چڑھایا جاتا ہے تو وہ عوام میں بھی سرایت کرتی جاتی ہے۔ یہ خطرناک رجحان ہے جس میں فائدہ ہرگز نہیں ہے،سوائے نقصان کے۔