امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جب سے دوسری مرتبہ صدر بنے ہیں، آپے میں نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی محاذ روزانہ کھولتے ہیں اور کسی نے کسی سے روزانہ جھگڑتے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 27, 2025, 1:32 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جب سے دوسری مرتبہ صدر بنے ہیں، آپے میں نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی محاذ روزانہ کھولتے ہیں اور کسی نے کسی سے روزانہ جھگڑتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ، جب سے دوسری مرتبہ صدر بنے ہیں، آپے میں نہیں ہیں۔ کوئی نہ کوئی محاذ روزانہ کھولتے ہیں اور کسی نے کسی سے روزانہ جھگڑتے ہیں۔ جھگڑتے نہیں ہیں تو کچھ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر آئندہ جھگڑنا ممکن ہو۔ اِن دنوں ’’ایپل‘‘ کے سی ای او ٹم کوک سے اُن کی ٹھنی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے ٹم کوک سے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ہندوستان میں آئی فون بنوانا بند کرو مگر ٹم ٹوک اس حکم کی تعمیل کیلئے خود کو آمادہ نہیں پاتے۔ اُنہوں نے کہہ بھی دیا کہ مَیں تو ہندوستان میں اپنی کمپنی کی سرگرمیاں جاری رکھوں گا۔ اس پر ٹرمپ ناراض ہوگئے کہاٹھیک ہے تم ہندوستان سے دوستی نبھاؤ مگر یاد رکھو کہ امریکہ میں تمہارا فون فروخت نہیں ہوگا اور اگر ہوا تو اُس پر ۲۵؍ فیصد ٹیرف لگے گا۔
اپنے اس موقف کے ذریعہ ٹرمپ ہندوستان سے اپنے بغض کو بھی ظاہر کررہے ہیں اور ایپل کو روکنا بھی چاہتے ہیں مگر صنعتکار آخر صنعتکار ہوتا ہے۔ وہ اپنی سہولت اور منافع دیکھتا ہے۔ ہندوستان میں لیبر سستا ہے اس لئے اُنہیں ٹرمپ کے حکم میں کوئی کشش نظر نہیں آرہی ہے۔ اُن کیلئے کشش ہندوستان ہی میں ہے۔ کیوں نہ ہو کہ ہندوستان میں بننے والے آئی فون پر کم لاگت آتی ہے۔ ٹرمپ کے کہنے پر وہ یعنی ٹم کوک امریکہ میں مینوفیکچرنگ یا اسمبلنگ شروع نہیں کروا سکتے کیونکہ لاگت بہت زیادہ آئے گی۔ اس کے سبب فون کی قیمت بڑھے گی، اس کی فروخت متاثر ہوگی اور منافع پر ضرب لگے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان میں فون کا پروڈکشن جاری رہا اور اس کے نتیجے میں ٹرمپ نے آئی فون پر ۲۵؍ فیصد ٹیرف لگایا تب بھی ٹم کوک کے لئے یہ سستا سودا ہے، منافع کم ہوسکتا ہے مگر منافع ختم نہیں ہوگا، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آئی فون کی حصولیابی متاثر نہیں ہوگی اور جتنی طلب ہے اُتنی رسد کو یقینی بنایا جاسکے گا۔ اسی لئے ٹم کوک اَڑے ہوئے ہیں، وہ ٹرمپ کی دھمکی کا کوئی اثر نہیں لے رہے ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ٹرمپ کی گیدڑ بھپکیوں سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ شروع میں اسی طرح دھمکائیں گے، اس کے بعداپنی شرطو ں میں نرمی لائیں گے جیسا کہ چین کے ساتھ ہوا۔ اگر چین نے اُن کی دھمکیوں پر اپنے سُر مدھم کرلئے ہوتے تو فیصلے کو مؤخر کیا جاتا نہ ہی کچھ اور ہوتا۔
ٹرمپ ’’میک اِن امریکہ‘‘ پر زور دے رہے ہیں مگر اس کیلئے امریکہ میں فضا سازگار کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ میں لیبر سستا ہو۔ ویسے یہ ہو بھی نہیں سکتا۔ جو ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایپل نے امریکہ میں مینوفیکچر کرنا شروع کیا تو لاگت بڑھے گی اور ہر موبائل ہینڈ سیٹ کی قیمت میں ۳؍ ہزار ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ میں موجود تقسیم کاری کے نظام (سپلائی چین) میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی کیونکہ ایپل کا مختلف ملکوں کو موبائل فراہم کرنے کا نیٹ ورک کافی پیچیدہ ہے۔
ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورہ کیلئے ٹم کوک کو اپنے قافلے میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی مگر آخر الذکر نے انکار کردیا۔ نیویارک ٹائمس کی جس رپورٹ کا حوالہ مختلف خبروں میں موجود ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ انکار کی وجہ سے ٹرمپ جھلا گئے تھے۔ مگر یہ خلاف ِ معمول نہیں۔ وہ کسی نہ کسی بات پر روزانہ جھلاتے ہیں۔