عید قرباں محض قربانی نہیں ایک پیغام ہے۔ قربانی اور ایثار کا پیغام۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان عید قرباں تو جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں مگر قربانی اور ایثار کے پیغام کو فراموش کردیتے ہیں ۔آس
EPAPER
Updated: June 08, 2025, 2:08 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
عید قرباں محض قربانی نہیں ایک پیغام ہے۔ قربانی اور ایثار کا پیغام۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان عید قرباں تو جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں مگر قربانی اور ایثار کے پیغام کو فراموش کردیتے ہیں ۔آس
عید قرباں محض قربانی نہیں ایک پیغام ہے۔ قربانی اور ایثار کا پیغام۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان عید قرباں تو جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں مگر قربانی اور ایثار کے پیغام کو فراموش کردیتے ہیں ۔آس پاس کے خاندانوں کے حالات کا جائزہ لیجئے تو بہت سے رجحانات اس بات کی توثیق کرتے ہیں ۔ بھائی سے بھائی کی ناچاقی ہوجائے تو یہ غیر فطری نہیں مگر اُس ناچاقی کا برقرار رہنا اور وقت کے ساتھ زیادہ گہرا ہوتا چلا جانا کیا سمجھاتا ہے؟
سنا تھا کہ ایک صاحب نے کسی کو قرض دیا۔ اُس نے وقت پر قرض لوٹانے کی کوشش کی تو قرض دینے والے نے کہا کہ لوٹانے کی ضرورت نہیں البتہ جب کسی اور شخص کو مالی مشکل میں دیکھو تو یہ رقم اُسے دے دینا، مَیں سمجھوں گا کہ جو قرض مَیں نے دیا تھا وہ ادا ہوگیا۔ یہ جذبہ آج کہاں دکھائی دیتا ہے؟ یہ ایثار ہی تو تھا۔ اور ایثار بھی کس درجے کا؟ اگر معاشرہ کے بہت سے لوگ اس انداز میں قرض دینے لگیں تو سوچئے کہ کس طرح لوگوں کی مدد بھی ہوگی اور ایک خوشگوار تاثر قائم ہوگا۔
ایک نوجوان کے والد نے بیٹے کی شادی کیلئے خطیر رقم جمع کی تھی مگر صاحبزادہ کی شادی سے پہلے ہی وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بیٹے کو گہرا صدمہ پہنچا۔ اُس نے والد کے ایصال ثواب کیلئے کچھ کرنا چاہا۔ اِس دوران اُس نے شادی تو کی مگر نہایت سادگی کے ساتھ اور والد کی جمع کردہ خطیر رقم اُن کے نام سے صدقہ کردی۔ رشتہ داروں اور واقف کاروں نے پیٹھ پیچھے کافی کچھ کہا سنا مگر اُس نے کسی کی بات کا ملال نہیں کیا۔ اس کے برخلاف وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا کہ اُس نے والد کے نام سے خطیر رقم صدقہ کی ہے۔ سوچئے کتنے نوجوان ہیں ایسے؟
ایک واقعہ کچھ اس طرح بھی ہے کہ والد ابھی بقید حیات ہیں ، ایسا نہیں کہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ چکے ہوں اور اُن کی غیر موجودگی کا فائدہ اُٹھا کر اُن کے بیٹے اپنی اکلوتی بہن کو ترکہ میں حصہ دار بنانے سے گریز کررہے ہوں یہ کہہ کر کہ تمہارا جو حصہ تھا وہ تمہاری شادی میں خرچ ہوچکا۔ والد صاحب نے خود یہی دلیل پیش کی کہ شادی میں جو خرچ کیا وہی تمہارا حصہ تھا۔ یہ گھر گھر کی بات نہ ہو تب بھی کسی ایک گھر کی بات ہرگز نہیں ہے۔ یہ رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بیٹیوں کو اُن کے حق سے محروم کرنے کی داستانیں معاشرہ میں بکھری پڑی ہیں ۔ جب حقدار کو حق بھی نہ دیا جاتا ہو تو ایثار کا درس کس کو دیا جائے اور کون اس پر کان دھرے گا؟
مگر، چونکہ ہر گھر میں عید قرباں کی خوشیاں منائی جاتی ہیں اور صاحبان نصاب جانور کی قربانی کرکے ہر خاص و عام پر جذبۂ قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا درس دیتے ہیں اس لئے لازمی ہے کہ قربانی کے اصل اور حقیقی فلسفے پر غور کیا جائے۔ تھوڑی دیر کیلئے ہی سہی، سوچا جائے کہ قربانی کے ذریعہ کیا مطلوب ہے، کیوں دی جاتی ہے اور جانور ذبح کرنے کے تعلق سے یہ کیوں کہا گیا ہے کہ رب العالمین کو اس کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا۔ملت اسلامیہ کو ایسی بہت سی باتوں پر غور کرنا چاہئے۔ چونکہ غور نہیں کیا جاتا اس لئے بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو ’’پابند ِ رسوم‘‘ ہیں ۔ قربانی کے تعلق سے بھی واضح رہنا چاہئے کہ یہ کوئی رسم نہیں ہے۔ یہ سنت ابراہیمیؑ کی ادائیگی اور ایک عظیم الشان یادگار ہے جسے یادگار اس لئے بنایا گیا ہے کہ جذبۂ قربانی فروغ پائے، ہر دل میں ایثار کا جذبہ ہمکنے لگے ۔