جو ممالک غزہ کی جنگ رُکوانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے مگر مصلحتاً خاموش رہے، اُن میں سے کچھ نے اب زبان کھولنی شروع کی ہے۔ انہوں نے ٹھوس قدم اُٹھانا بھی شروع کیا ہے۔
EPAPER
Updated: May 28, 2025, 3:24 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
جو ممالک غزہ کی جنگ رُکوانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے مگر مصلحتاً خاموش رہے، اُن میں سے کچھ نے اب زبان کھولنی شروع کی ہے۔ انہوں نے ٹھوس قدم اُٹھانا بھی شروع کیا ہے۔
جو ممالک غزہ کی جنگ رُکوانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے مگر مصلحتاً خاموش رہے، اُن میں سے کچھ نے اب زبان کھولنی شروع کی ہے۔ انہوں نے ٹھوس قدم اُٹھانا بھی شروع کیا ہے۔ مثلاً برطانیہ (یوکے) نے فری ٹریڈ سے متعلق مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا ہے۔ یورپی یونین بھی اسرائیل کا ناطقہ بند کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ ممالک جو قدم آج اُٹھا رہے ہیں، اگر اُسی وقت اُٹھا لیا ہوتا جب تل ابیب میزائل پر میزائل گرا رہا تھا، اہل غزہ چیخ رہے تھے، بلبلا رہے تھے، بھاگ رہے تھے، ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی، غزہ کے محلے تباہ ہورہے تھے، مکانوں اور دکانوں کے علاوہ اسکول، کالج، اسپتال اور دیگر انفراسٹرکچر ملبے میں تبدیل ہورہا تھا اور چہار جانب قیامت برپا تھی تو تل ابیب کی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ اِس یکطرفہ جنگ اور قتل عام کو جاری رکھ پاتا۔ امریکہ کی پشت پناہی اور دیگر ملکوں کی مجرمانہ خاموشی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا اور یہی نکلا کہ غزہ کے ۵۴؍ ہزار بے گناہ شہریوں کو جام ِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ جن ملکوں کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے وہ اب تک خواب ِخرگوش کا مزا لے رہے تھے۔ اتنی تباہی پھیلنے کے بعد ان کا جاگنا، عمل ِ بیداری کو شرمندہ کرنے جیسا ہے مگر دیر آید، درست آید کے مصداق اس کی بھی اہمیت ہے، اسے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
اسے، اس لئے بھی خارج نہیں کیا جاسکتا کہ اب اسرائیل کو صرف جنگ سے روکنے کی ضرورت نہیں ہے، جنگ اتنی تباہی پھیلا چکی ہے کہ اب اگر رُکی بھی تو کیا رُکی۔ اب اسرائیل کو غزہ پر ناجائز قبضے سے روکنا ہے چنانچہ مذکورہ ملکوں کا بعد از خرابیٔ بسیار ہوش میں آنا بھی لائق تحسین ہوگا اگر انہوں نے تل ابیب کو ہوش میں لانے میں کامیابی حاصل کی۔ جہاں تک ہم نے سمجھا ہے، برطانیہ نے ابھی صرف مذاکرات روکے ہیں، درآمد برآمد بند نہیں کی ہے۔ اسے اپنے اقدام کو نتیجہ خیز بنانے کی مثال قائم کرنی ہوگی۔ یہ اسرائیل کا گیارہواں درآمدی شراکت دار ہے جبکہ برآمدی شراکت دار کی حیثیت سے اس کا مقام ۸؍ واں ہے۔
اس کے ساتھ ہی اگر یورپی یونین جیسے کئی ملکوں نے اتحاد نے بھی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور تل ابیب کو غزہ اور مغربی کنارہ پر قبضے کے ناپاک ارادہ سے روکنے میں کامیاب ہوگیا تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ متعلقہ ملکوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ سے اُمید ِ وفا نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ پہلے بولتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔ اسی لئے کئی بار اُنہیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی پڑتی ہے۔ یہی دیکھئے کہ انہوں نے ٹیرف کے معاملے میں کتنی بار اپنا ارادہ بدلا۔ ایسی حالت میں ان ملکوں کو جو بھی کرنا ہے، اپنے بل بوتے پر کرنا ہے، امریکہ کی مرضی و منشاء کو اپنے موقف پر اثر انداز نہیں ہونے دینا ہے۔ اسرائیلی مصنوعات کی درآمد کرنے والے ملکوں میں تین سب سے بڑے ممالک امریکہ، آئر لینڈ اور چین ہیں۔ ان میں امریکہ کا کردار مشکوک ہے مگر آئرلینڈ اور چین سے اُمید کی جاسکتی ہے۔ اگر انہوں نے اسرائیل کی معاشی ناکہ بندی کے مقصد سے کاروباری روابط کو منقطع نہیں، محدود بھی کرلیا تو تل ابیب کو سبق سکھایا جاسکتا ہے۔ غزہ، اہل غزہ کو ملنا چاہئے۔ اس پر نہ تو امریکہ کا قبضہ ہو نہ اسرائیل کا۔ یہی نہیں بلکہ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں پر سے حاسدانہ نگاہ ہٹائی جائے۔ اِن علاقوں میں عوام کا اقتدار بحال کیا جائے۔