• Tue, 16 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فرض شناسی کی ایک مثال اور چند باتیں

Updated: August 27, 2025, 6:22 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 فرض شناسی ایسا وصف ہے جو انسان کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں اس کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے والے بھلے ہی اقلیت میں آگئے ہوں مگر جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو فرض شناس ہوتے ہیں ان کی قدر کرتا ہے۔ 

Picture: INN
تصویر: آئی این این

فرض شناسی ایسا وصف ہے جو انسان کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔ دورِ حاضر میں اس کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے والے بھلے ہی اقلیت میں آگئے ہوں مگر جو جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو فرض شناس ہوتے ہیں ان کی قدر کرتا ہے۔ 
 یہ مختصر تمہید اُس خبر پر اظہار خیال کیلئے ہے جو چند روز قبل ایک معاصر انگریزی اخبار میں شائع ہوئی ہے۔ خبر کا تعلق منڈی (ہماچل پردیش) کی ایک تحصیل، پادھر، سے ہے۔ یہاں کی ایک نرس نے، محض اس لئے کہ سیلابی کیفیت سے دوچار ایک نالے کے اُس پار ایک نوزائیدہ کو ویکسین دینی ہے، اپنی جان جوکھم میں ڈالی اور نالے کے طوفانی بہاؤ سے بے خو ف ہوکر ایک چٹان سے دوسری چٹان پر کود کر اُس پار جانے کی کوشش کی۔ یہ اسلئے بہت بڑا خطرہ تھا کہ اندازے کی معمولی سی غلطی بھی کملا دیوی نامی اُس نرس کیلئے مہلک ہوسکتی تھی مگر فرض کی ادائیگی کے آگے اُس نے خطرہ مول لینا گوارا کیا۔ اِس دوران کسی نے اُس کی ویڈیو بنالی اور پھر سوشل میڈیا پر ہر خاص و عام نے اُس کی بہادری اور فرض شناسی کی ستائش کی۔
  معلوم ہوا کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اُصولوں کو، جذبۂ خدمت کو، بے غرضی کو یا اُس احساس ِذمہ داری کو مقدم رکھتے ہیں جسے ’’کال آف ڈیوٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس پر بھی کملا دیوی کی معصومیت ملاحظہ کیجئے کہ جب اُس سے کہا گیا کہ اُس نے اپنی جان کی پروا (کیوں) نہیں کی تو اُس کا جواب تھا: ’’مجھے نوزائیدہ کی فکر تھی، موسم خراب تھا اس لئے اُس کی ماں ٹیکہ دلوانے نہیں آئی تو مَیں نے سوچا کہ خود اُس کے گھر چلی جاؤں۔‘‘  کملا دیوی کے افسران بالا کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اُنہوں نے ستائش تو کی مگر یہ بھی کہا کہ فرض کی انجام دہی بلاشبہ قیمتی ہے مگر اپنی جان خطرہ میں ڈالنا ٹھیک نہیں۔ خبر کے مطابق کملا دیوی دو بچوں کی ماں ہے۔ جب اُس نے نالا پار کرنے کا فیصلہ کیا تب اُسے اپنے بچوں کا بھی خیال آیا ہوگا مگر اس نے جھٹک دیا ہوگا، یا، ہوسکتا ہے اُس پر ایک ہی دُھن سوار رہی ہو کہ بچے کو ٹیکہ لگانا ہے۔
  کاش ایسے فرض شناس لوگوں سے، جنہیں کوئی نہیں جانتا، وہ لوگ سبق لیں جنہیں سب جانتے ہیں اور جن کا انتخاب ہی عوامی خدمت کیلئے ہوتا ہے۔ ان میں بہت کم ایسے ہیں جنہیں فرض شناس کہا جاسکتا ہے۔ عوام کو اُن کے حال پر چھوڑ کر اپنا حال عزیز رکھنا ان کا طرۂ امتیاز ہے، چاہے عوام سڑک کے گڑھوں سے گرتے پڑتے گزریں، نوجوان بے روزگاری کا عذاب جھیلیں، امتحانات میں دھاندلی ہو، سماج میں جرائم کی بھرمار ہو، کمزوروں کا استحصال ہو یا اور کچھ ہو جائے۔
 فرض کو سمجھنے اور ادا کرنے کا پاٹھ صرف سیاستدانوں یا وزیروں کو نہیں پڑھایا جاسکتا۔ سماج کو بھی اپنا فرض سمجھنا اور ادا کرتے رہنا چاہئے۔ یہ بات جتنی کہنے کی ہے اُس سے کہیں زیادہ سمجھنے کی ہے۔ سماج کے لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جنہیں حقوق کی پروا ہے کہ ’’یہ تو میرا حق ہے‘‘ مگر حق کے ساتھ جو فرض ہے وہ اُن کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ سماج جاگتا رہے اور اپنا حق مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنا فرض بھی نبھاتا رہے تو سیاست زیادہ عرصے تک خوابِ غفلت کے مزے نہیں لے سکتی، جمہوریت میں تو اُسے بآسانی بیدار کیا جاسکتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کا اپنا فرض ہے بالکل اُسی طرح جیسےپڑوسی کا پڑوسی پر اور ایک شہری کا دوسرے شہری پر بہت کچھ فرض ہے۔ غور کیجئے کتنے لوگ ہیں جو ان پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK