• Tue, 16 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امبانی-اڈانی میں کچھ صحرا میں سبز توانائی کے لیے مقابلہ

Updated: September 15, 2025, 9:54 PM IST | New Delhi

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں صنعتکاروں کے پاس اس علاقے میں تقریباً ۵؍ لاکھ ایکڑ اراضی ہے، یہ اتنی بڑی ہے کہ دونوں گروپ۱۰۰؍ گیگا واٹ سے زیادہ شمسی توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔

Mukesh Ambani And Gautam Adani.Photo:INN
گوتم اڈانی اورمکیش امبانی۔ تصویر:آئی این این

ہندوستان  کے دو سب سے بڑے صنعتکار مکیش امبانی اور گوتم اڈانی، گجرات کے کچھ ضلع میں بنجر نمکین زمینوں کو ملک کے سب سے بڑے سبز توانائی کے منصوبوں کا مرکز بنانے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔ برنسٹین ریسرچ کی ایک نئی رپورٹ نے اسے ’کچھ کا راج‘ کا نام دیا ہے۔ دونوں صنعتکاروں کے پاس اس علاقے میں تقریباً ۵؍لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ دونوں گروپ۱۰۰؍ گیگا واٹ سے زیادہ شمسی توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ جاپان کی کل بجلی کی گنجائش کے برابر ہے لیکن، دونوں کی حکمت عملی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔

یہ بھی پڑھیئے:اگست میں مسافر گاڑیوں کی فروخت میں ۹؍فیصد کے قریب کمی

مختلف راستے، ایک ہی منزل
مکیش امبانی کی ریلائنس انڈسٹریز، جو پہلے آئل ریفائنریوں اور پیٹرو کیمیکلز کے لیے مشہور تھی، اب گرین انرجی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کمپنی جدید ایچ جے ٹی ہیٹرو جنکشن  ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ۲۰؍گیگا واٹ کا سولار ماڈیول پلانٹ بنا رہی ہے۔ اس کے علاوہ۴۰؍ گیگا واٹ گھنٹے بیٹری بنانے والی فیکٹری بھی شروع کی جا رہی ہے جسے مستقبل میں ۱۰۰؍ گیگا واٹ  تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ریلائنس کا مقصد۲۰۳۲ء تک ہر سال۳؍ ملین ٹن گرین ہائیڈروجن پیدا کرنا ہے۔ کمپنی اپنے ڈجیٹل منصوبوں کو سبز توانائی سے بھی جوڑ رہی ہے۔ میٹا اور گوگل کے ساتھ مل کر، یہ کئی گیگا واٹ ڈیٹا سینٹرس بنا رہا ہے، جو مکمل طور پر قابل تجدید توانائی پر چلیں گے۔
 دوسری طرف گوتم اڈانی کا اڈانی گروپ روایتی پاور سیکٹر میں اپنی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ اڈانی گرین انرجی کے پاس بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کی ایک بڑی فہرست ہے۔ اڈانی ٹرانسمیشن ملک کا سب سے بڑا نجی ٹرانسمیشن نیٹ ورک چلاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اڈانی اپنے اڈانی کونیکس  وینچر کے ذریعے ایک ڈیٹا سینٹر بھی بنا رہا ہے، جو مصنوعی ذہانت(اے آئی)  کی ضروریات کو پورا کرے گا۔
چھوٹی کمپنیوں کو خطرہ
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دونوں گروپوں کے بڑے منصوبے چھوٹی کمپنیوں کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ سولار مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بڑی ہلچل ہو سکتی ہے۔ اگر درآمدات پر سختی بڑھ جاتی ہے تو ریلائنس اور اڈانی مل کر تقریباً نصف  صلاحیت اور۹۰؍ فیصد پولی سیلیکون پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ واری انرجی اور پریمیر انرجی جیسی چھوٹی کمپنیوں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ریلائنس کے بیٹری پروجیکٹ دوسروں کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں، کیونکہ یہ واحد کمپنی ہے جو پوری طرح سے بیٹری اسٹوریج پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ بہت سی چھوٹی کمپنیاں اپنے سیل پلانٹس کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش میں  آئی پی او لا رہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK