بی ایل او یعنی بلاک لیول آفیسر سرکاری یا نیم سرکاری ملازم ہوتا ہے جو عام دنوں میں اپنے محکمے کی تفویض کردہ ذمہ داریاں انجام دیتا ہے مگر الیکشن کمیشن آف انڈیا رائے دہندگان کی فہرست مرتب کرنے یا جانچنے کے مقصد سے انہیں اپنی ماتحتی میں لے لیتا ہے۔
بی ایل او یعنی بلاک لیول آفیسر سرکاری یا نیم سرکاری ملازم ہوتا ہے جو عام دنوں میں اپنے محکمے کی تفویض کردہ ذمہ داریاں انجام دیتا ہے مگر الیکشن کمیشن آف انڈیا رائے دہندگان کی فہرست مرتب کرنے یا جانچنے کے مقصد سے انہیں اپنی ماتحتی میں لے لیتا ہے۔ یہ آج سے نہیں ہو رہا ہے، بہت سے کلرک، اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازم برسوں سے یہ ذمہ داری جو بنیادی طور پر اضافی ہوتی ہے، ادا کرتے آئے ہیں مگر ایس آئی آر، وہ بھی نہایت کم مدت میں ، ایسا جوکھم ہے جس سے بی ایل اوز کی جان پہ بن آئی ہے۔ ہر چند کہ انہیں اس نوع کے کاموں کا تجربہ ہے مگر تجربہ ایک چیز ہے اور ناقابل برداشت بوجھ بالکل دوسری چیز۔ ملازمت کی نزاکت انہیں حرف شکایت زبان پر لانے سے روکتی ہے۔ جو بھی کہا جاتا ہے سن لیتے ہیں یا یوں کہئے کہ سہہ لیتے ہیں ۔ ایس آئی آر کے سلسلے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ انیس دن میں چھ ریاستوں کی مجموعی طور پر پندرہ اموات حساس لوگوں کیلئے بہت بڑا صدمہ ہے۔ اسے معمول کی وارداتیں سمجھنا بے حسی ہی نہیں ، غیر انسانی عمل بھی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن تب جاگے گا جب خدانخواستہ ہلاکتوں کی تعداد سو تک پہنچ جائیگی یا اس سے بھی تجاوز کر جائیگی؟ بے حسی جیسی بے حسی کا احساس تب ہوتا ہے جب ہم کسی اعلیٰ افسر کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ چند ایک ہلاکتوں سے قطع نظر مجموعی طور پر ایس آئی آر کی مہم ہدف کو پورا کر رہی ہے۔ اس مفہوم کا بیان گزشتہ دنوں راجستھان کے چیف الیکٹورل آفیسر نوین مہاجن نے دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بی ایل اوز کو کم ترین وقت میں زیادہ سے زیادہ کام پورا کرنے کی مصیبت میں جھونک کر الیکشن کمیشن کون سا ریکارڈ بنانا اور کون سا اعزاز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اب تک گجرات، مغربی بنگال، راجستھان، تمل ناڈو اور کیرالا میں ہونے والی اموات بڑی دردناک داستان سنا رہی ہے مگر الیکشن کمیشن شاید یہ طے کرکے بیٹھا ہے کہ جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے، ایس آئی آر کی مہم کو جس طرح چلایا جا رہا ہے اسی طرح جاری رکھا جائیگا، نہ تو وقت بڑھایا جائیگا نہ ہی بی ایل اوز کو کوئی سہولت دی جائیگی۔ کیا اس طرز عمل کو کسی بھی زاویئے سے منصفانہ کہا جا سکتا ہے؟ اگر یہ منصفانہ ہے تو ہمیں مزید اموات کا (خدانخواستہ) انتظار کرنا چاہئے اور اگر یہ غیر منصفانہ ہے تو اس پر فوراً روک لگنی چاہئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ بی ایل او مارے مارے پھر رہے ہیں اور کام کے بوجھ سے ہلکان ہیں مگر الیکشن کمیشن دعوؤں پر دعوے کرنے سے باز نہیں آرہا ہے۔ اب تک بارہ ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں ایس آئی آر کی پیش رفت کے بارے میں اطلاع دینے سے شاید اسے بڑا اطمینان ہوتا ہے جبکہ اطلاعات شاید ہیں کہ ان ریاستوں میں کم و بیش اکیاون کروڑ شہریوں میں اینومریشن فارم تقسیم ہوچکے ہیں مگر صرف بیس فیصد فارم ڈیجیٹائز کئے گئے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ اس دشوار کام کو کافی آسان سمجھ لیا گیا ہے۔ بہار میں جس طرح جیسے تیسے فارم بھرے گئے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ کیا بارہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بھی وہی ناقص ایس آئی آر ہوگا جو بہار میں ہوا؟