بہار میں انتخابی فہرست میں ’’اہل‘‘ شہریوں کو شامل کرنے اور جو اہل نہیں ہیں ان کے نام خارج کرنے کی غیر معمولی مشق کو جو نام دیا گیا ہے وہ اسپیشل انٹینسیو رویژن ہے یعنی یہ صرف رویژن نہیں ، اسپیشل بھی ہے اور انٹینسیو بھی ہے۔ ا
EPAPER
Updated: July 07, 2025, 2:06 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
بہار میں انتخابی فہرست میں ’’اہل‘‘ شہریوں کو شامل کرنے اور جو اہل نہیں ہیں ان کے نام خارج کرنے کی غیر معمولی مشق کو جو نام دیا گیا ہے وہ اسپیشل انٹینسیو رویژن ہے یعنی یہ صرف رویژن نہیں ، اسپیشل بھی ہے اور انٹینسیو بھی ہے۔ ا
بہار میں انتخابی فہرست میں ’’اہل‘‘ شہریوں کو شامل کرنے اور جو اہل نہیں ہیں ان کے نام خارج کرنے کی غیر معمولی مشق کو جو نام دیا گیا ہے وہ اسپیشل انٹینسیو رویژن ہے یعنی یہ صرف رویژن نہیں ، اسپیشل بھی ہے اور انٹینسیو بھی ہے۔ اس کامعنی یہ ہے کہ یہ سرسری ہرگز نہیں ہے۔ اس کو بہت غور سے، بڑی باریکی سے اور بڑی محنت سے عمل میں لایا جائیگا ۔
کام کی نوعیت اور دستیاب وقت کے تناظر میں سمجھنے کی ایک کوشش اس طرح ہوسکتی ہے: جن رائے دہندگان کو اپنا نام کٹنے کا اندیشہ ہے ان کی مجموعی تعداد کم و بیش تین کروڑ ہے۔ اگر ایک ووٹر سے اس کی تفصیل حاصل کرنے میں صرف دس منٹ لگتے ہوں تب بھی تین کروڑ شہریوں پر دس دس منٹ کے حساب سے انتخابی عملے کو تیس کروڑ منٹ درکار ہوں گے یعنی پچاس لاکھ گھنٹے۔
انتخابی عملہ ایک دن میں آٹھ گھنٹے کام کرے گا اس لئے پچاس لاکھ گھنٹوں کے کام کیلئے اسے چار لاکھ دن کی ضرورت ہوگی۔ ہم نہیں جانتے کہ چار لاکھ دن کے کام کیلئے انتخابی عملہ کتنے اہلکاروں پر مشتمل ہے مگر یہ طے ہے کہ جس کام کا بیڑا اٹھایا گیا ہے وہ کافی بڑا ہے جبکہ انتخابی کمیشن کے پاس وقت کم ہے (الیکشن نومبر میں ہونے ہیں )۔ ایسی صورت میں اس کے پاس جو وقت ہے اس میں جولائی کے پچیس دن، اگست کے اکتیس دن اور اگر ستمبر کے تمام تیس دن مل گئے تو کل چھیاسی دن ہیں کیونکہ اکتوبر میں انتخابی اعلان ہونے تک حتمی انتخابی فہرست تیار ہو جانی چاہئے۔ اگر ہم نے جو حساب لگایا اور جو تفصیل پیش کی ہے وہ درست ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی کمیشن کو یہ ہمالیائی کام کرنا ہی تھا تو اس کی آنکھ محض چند ماہ قبل کیوں کھلی؟کیا اس کی تیاری پہلے سے تھی اور بہت کم وقت میں اس کا اعلان کرنے کا کوئی اور سبب ہے؟ ہم کسی بھی ادارہ کے عزائم پر سوال نہیں اُٹھا سکتے مگر اس سے ہونے والی پریشانیوں پر تو یقیناً کہیں گے کہ یہ عوام کو ستانے جیسا ہے۔
الیکشن کمیشن اپنے منصوبوں کے بارے میں نہیں بتائے گا مگر جس جانب اس نے قدم بڑھائے ہیں اس تو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ جس کسی ریاست میں الیکشن ہوگا وہاں بھی یہی کسرت ہوگی اور شہریوں کو اپنے کاغذات کھنگالنے پر لگا دیا جائیگا۔ کمیشن کی ذمہ داری الیکشن کروانے کی ہے یا شہریوں کو پریشان کرنے کی؟ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کا جو سلسلہ جاری ہوا تھا اس سے شہریوں کا اضطراب جگ ظاہر ہوگیا تھا۔ اب ایک بار پھر عوام شک و شبہ میں مبتلا ہورہے ہیں کہ کہیں یہ بھی این آر سی وغیرہ کے نفاذ کا کوئی نیا طریقہ تو نہیں ؟
یاد رہے کہ لوک سبھا الیکشن کو ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے۔ جو انتخابی فہرست لوک سبھا الیکشن کیلئے قابل قبول تھی وہ اچانک ناقابل قبول کیسے ہوگئی؟ شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کے دور میں یہ بات سامنے آچکی تھی اور کافی تفصیل سے آئی تھی کہ بہت سے لوگوں کے پاس کاغذات یا تو ہیں نہیں یا ان میں خامیاں ہیں ۔ گاؤں دیہات میں یہ مسئلہ زیادہ ہوتا ہے۔ صحیح کاغذات تھے مگر سیلاب کی نذر ہوگئے یہ مسئلہ تو بہت سوں کا نکل آئے گا۔ پھر، بہار کیلئے کاغذات کی جو فہرست دی گئی ہے وہ بھی ٹیڑھی کھیر ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آدھار کارڈ قابل قبول نہیں جبکہ اب ہر معاملے میں آدھار مانگا جاتا ہے۔ بہرحال ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر یہ عمل رُکے گا اور بہار الیکشن خیر و خوبی سے انجام پائیگا۔