’اے ڈی آر‘ نے سپریم کورٹ سے فیصلے پر روک لگانے کی مانگ کی، کروڑوں افراد کے حق رائےدہلی سےمحروم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا، شہریت کا ثبوت مانگنے کو آئین کی دفعہ ۱۴، ۱۹، ۲۱،۳۲۵؍ اور ۳۲۶؍ اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 12:21 AM IST | New Delhi
’اے ڈی آر‘ نے سپریم کورٹ سے فیصلے پر روک لگانے کی مانگ کی، کروڑوں افراد کے حق رائےدہلی سےمحروم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا، شہریت کا ثبوت مانگنے کو آئین کی دفعہ ۱۴، ۱۹، ۲۱،۳۲۵؍ اور ۳۲۶؍ اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی مختلف دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا
بہار میں ووٹر لسٹ کی ’خصوصی گہری نظرثانی‘ ( اسپیشل انٹینسیو ریویژن ، ایس آئی آر) کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کے حق رائے دہی سےمحروم ہونےکے اندیشوں کےبیچ غیر سرکاری تنظیم’ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘ (اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اے ڈی آر نے الیکشن کمیشن کے۲۴؍جون کے حکم کو ’من مانی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر ایس آئی آر کے اس حکم کو منسوخ نہ کیا گیا تو لاکھوں ووٹرز، خاص طور پر سماج کا وہ حصہ جو حاشیے پر ہے، مثلاً درج فہرست ذات (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور مزدوری کیلئے دیگر ریاستوں کا سفر کرنے پر مجبور افراداپنے حق رائے دہی سے محروم ہو سکتے ہیں۔
۳؍ کروڑ افراد کےمتاثر ہونے کا اندیشہ
اے ڈی آر نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ سخت شرائط اور پیچیدہ تصدیقی عمل کی وجہ سے تین کروڑ سے زائد ووٹرز متاثر ہو سکتے ہیں۔ درخواست گزار کے مطابق یہ عمل نہ صرف آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق، جیسے مساوات اور زندگی کے حق کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ عوامی نمائندگی ایکٹ۱۹۵۰ء اور الیکٹورل رجسٹریشن رولز۱۹۶۰ء کے بھی منافی ہے۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل ۳۲؍ کےتحت داخل کی گئی رِٹ پٹیشن میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ ووٹرس سے شہریت کا ثبوت پیش کرنےکیلئے جس طرح کےدستاویز مانگے گئے ہیںوہ آئین کے آرٹیکل ۱۴، ۱۹، ۲۱، ۳۲۵؍ اور ۳۲۶؍ نیز الیکٹورل رجسٹریشن رولز ۱۹۶۰ء کے ’رُول ۲۱؍اے‘ کی خلاف ورزی ہے۔
حکم پر فوری روک کی ضرورت
اے ڈی آر نے اپنی پٹیشن میں کہا ہے کہ ’’اگر’گہرائی کے ساتھ خصوصی نظر ثانی‘ (ایس آئی آر) کے فیصلے پر روک نہ لگائی گئی تویہ من مانے طور پر قانونی عمل کی مکمل پاسداری کےبغیر لاکھوں افراد کے حق رائے دہی سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے اور اس طرح وہ اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا بنیادی حق کھو بیٹھیںگے جو ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچائے گا اور آزادانہ و منصفانہ الیکشن میں رکاوٹ بنے گا حالانکہ یہ ملک کے آئین کی اساس میں شامل ہے۔‘‘
۲۰۰۳ء کےبعد کے تمام ووٹر مشکوک ؟
واضح رہےکہ الیکشن کمیشن نے جو حکم جاری کیا ہے اس کے تحت ۲۰۰۳ء کے بعد انتخابی فہرست میں شامل ہونے والے تمام ووٹرس کیلئے لازمی ہیں کہ وہ اپنی اوراپنے والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت پیش کریںیکم جولائی ۹۸۷ء اور یکم دسمبر۲۰۰۴ء کے درمیان پیدا ہونے والے ووٹرس کواپنے والدین میں سے کسی ایک کی جائے پیدائش کا ثبوت پیش کرنا ہے جبکہ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہونے والوں کوماں اور باپ دونوں کے تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت پیش کرنا ہے۔ جن کے والدین کے نام ۲۰۰۳ء سے پہلے کی انتخابی فہرست میں ہے،وہ مذکورہ فہرست کی نقل دیکر والدین کا پیدائشی سرٹیفکیٹ فراہم کرنے سے بچ سکتے ہیں۔ اے ڈی آر نے نشاندہی کی ہے کہ اس طرح کے ثبوتوں کا مطالبہ نہ صرف یہ ہے کہ خود قانون کے مطابق نہیں ہے محض ایک ماہ کا وقت دیاگیا ہے جو ناکافی ہے۔