والدین سے پوچھئے کہ ان کے بچوں پر کس کا اثر زیادہ ہے، ان کا جواب ہوگا ماں کا یا باپ کا یا دادا کا یا دادی کا یا نانا کا یا نانی کا یا کسی اور قریبی رشتے دار کا۔ جب یہی بچے نوعمروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں تب یہی سوال کیا جائے تو ممکن ہے وہ اسکول کی معلمہ یا معلم کا نام بھی شامل کردیں یا دوستوں سہیلیوں کا بھی تذکرہ کردیں مگر ان کا اصرار یہی ہوگا کہ ماں باپ کا اثر ہی زیادہ ہے۔
والدین سے پوچھئے کہ ان کے بچوں پر کس کا اثر زیادہ ہے، ان کا جواب ہوگا ماں کا یا باپ کا یا دادا کا یا دادی کا یا نانا کا یا نانی کا یا کسی اور قریبی رشتے دار کا۔ جب یہی بچے نوعمروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں تب یہی سوال کیا جائے تو ممکن ہے وہ اسکول کی معلمہ یا معلم کا نام بھی شامل کردیں یا دوستوں سہیلیوں کا بھی تذکرہ کردیں مگر ان کا اصرار یہی ہوگا کہ ماں باپ کا اثر ہی زیادہ ہے۔یہ بات بھلے ہی اب بھی کہی جاتی ہو مگر اب اس غلط فہمی میں نہیں رہا جا سکتا کہ بچوں اور نوعمروں پر اہل خانہ ہی کا اثر ہوتا ہے۔ کم و بیش پینتیس سال قبل چین اور جاپان ہی سب سے پہلے کوریا کے تہذیبی اثرات کی زد پر آئے تھے۔ اسی لئے کورین کلچر کیلئے جو اصطلاح وضع ہوئی وہ چینی لفظ’’ہلیو‘‘ ہے۔ بہت تیزی سے یہ اثر بڑھنے اور پھیلنے لگا اور ہلیو کے دیوانوں کی تعداد امریکہ اور دیگر ملکوں میں بھی بڑھنے لگی۔ گزشتہ چند برسوں میں ہندوستانی نوعمر بھی کورین کلچر کے مداحوں میں شامل ہوگئے جس کا نتیجہ ہے کہ آپ کے ہمارے جگر گوشے بظاہر ہمارے اثر میں ہیں مگر اس کی ضمانت ملنی مشکل ہے کہ ایسا ہی ہے۔ موبائل ان کے ہاتھوں میں ہے، انٹرنیٹ تک ان کی رسائی ہے اور ان کی دنیا ہماری دنیا میں ہونے کے باوجود ہم سے الگ ہے جس کا احساس بہت سے والدین کو بالکل نہیں ہوتا۔ انہیں کورین ڈرامے، کورین موسیقی، کورین مصنوعات، کورین کھان پان اور کورین عادات و اطوار میں بڑی کشش محسوس ہورہی ہے۔ والدین اور اساتذہ کی وساطت سے ہمیں تو یہ تک معلوم ہوچکا ہے کہ کئی نوعمر خاموشی سے کورین زبان سیکھنے کیلئے پر تول رہے ہیں ۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ جو نوعمر اس سے محفوظ ہیں اور اپنے خاندان اور اساتذہ ہی کے اثر میں ہیں خدا انہیں ایسا ہی رکھے اور جو اس اثر کو قبول کر چکے ہیں خدا ان کی حفاظت فرمائے۔ مشکل یہ ہے کہ کس کا دل کوریا کیلئے دھڑک رہا ہے اس کا اندازہ لگانا اور کہنا مشکل ہے۔ اس لئے والدین کو متنبہ رہنا چاہئے اور گھر کے بچوں کو اعتماد میں لے کر ان کی دلی، ذہنی اور جذباتی کیفیت کا جائزہ لینے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ آپ جانتے ہیں بہت سے والدین بچوں کو نہ تو باہر جانے دیتے ہیں نہ باہر کے بچوں کو زیادہ وقت کیلئے گھر میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ وجہ صاف ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر اب حال یہ ہے کہ گھر کے دروازے کھڑکیاں مقفل کر دی جائیں تب بھی بیرونی اثرات گھر میں داخل ہوسکتے ہیں بلکہ ہورہے ہیں ۔ ہمارے نوعمروں کا کورین کلچر تک پہنچنا اور اس کو پسند کرنا اس کا ثبوت ہے۔ ہم نے بالائی سطور میں بچوں اور نوعمروں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں نوجوانوں کو بھی شامل کرلیجئے جو بھی ابھی عمر کے اس مرحلے میں داخل ہوئے ہیں البتہ بعض رپورٹس ایسی بھی ہیں جن میں پینتیس سینتیس سال کے افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کے پہننے اوڑھنے اور کھانے پینے کے تبدیل شدہ رجحانات سامنے آئے ہیں ۔ کے (کورین) ڈراما اور کے میوزک سے شروع ہونے والا رجحان اب زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی سرایت کررہا ہے۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل تک جس چیز کو کورین لہر سمجھا جارہا تھا وہ سونامی بن چکی ہے۔ کیا ہمیں خبردار نہیں رہنا چاہئے؟