عید قرباں قریب آتی ہے تو جانوروں کے نام نہاد محافظ سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جانور خریدنے اور بیچنے والوں ہی سے نہیں ، نظم و نسق کی ذمہ دار ایجنسیوں سے بھی مگر موجودہ حکومت نے ایسے عناصر کو اتنی چھوٹ دی ہے کہ اب وہ سرگرم ہونے کیلئے عید قرباں کا انتظار نہیں کرتے، عام دنوں میں بھی متحرک رہتے ہیں اور جانوروں کی خرید و فروخت اور نقل و حمل پر نگاہ رکھتے ہیں ۔
عید قرباں قریب آتی ہے تو جانوروں کے نام نہاد محافظ سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جانور خریدنے اور بیچنے والوں ہی سے نہیں ، نظم و نسق کی ذمہ دار ایجنسیوں سے بھی مگر موجودہ حکومت نے ایسے عناصر کو اتنی چھوٹ دی ہے کہ اب وہ سرگرم ہونے کیلئے عید قرباں کا انتظار نہیں کرتے، عام دنوں میں بھی متحرک رہتے ہیں اور جانوروں کی خرید و فروخت اور نقل و حمل پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ اگر جانوروں کی خرید و فروخت یا اُن کی نقل و حمل میں ضابطہ شکنی ہوتی ہو تو اُن کے خلاف کارروائی حکام کے اختیار میں ہے نہ کہ مذکورہ خود ساختہ محافظوں کے۔
گئو رکشا کی آڑ میں یہ ’’خدمت‘‘ انجام دینے والوں کے ساتھ جانوروں کے بیوپاریوں یا کارکنوں کا تصادم اکثر و بیشتر ہجومی تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ رجحان اس حد تک تقویت پا چکا ہے کہ اب کسی ’’ناپسندیدہ‘‘ شخص کی تحویل میں جانور نہ ہو تب بھی معمولی لفظی جھڑپ یا تکرار ہجومی تشدد میں تبدیل ہوجاتی ہے اور یہ عام بات ہوگئی ہے۔ مرکز یا ریاستی حکومتوں نے ایک خاص پیٹرن کے ساتھ ظاہر ہونے والے اس رجحان پر قابو پانے اور بے گناہوں کا قتل روکنے کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا جبکہ سپریم کورٹ نے واضح ہدایت دی تھی کہ ہر ریاست میں ایک نوڈل آفیسر مقرر کیا جائے تاکہ شرپسندوں کے خلاف بلاتاخیر کارروائی ہو۔ کیا یہ ہوا؟ ایسی کوئی اطلاع آج تک کہیں سے نہیں ملی۔
ان حالات میں عید قرباں جیسے عظیم تہوار پر تشویش کا لاحق ہونا فطری ہے۔ دشمنی نکالنے، پیسہ وصول کرنے یا سیاسی فائدہ اُٹھانے کی غرض سے بھی بہت سی جگہوں پر جانور یا گوشت کے نام پر ہنگامہ کھڑا کرنے کے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔ ان حالات سے مسلم تنظیمیں غافل نہیں ہیں اس لئے ان کی جانب سے قربانی کرنےو الوں کیلئے رہنمایانہ مشورے جاری کئے گئے ہیں جیسا کہ گزشتہ چند سال سے لازماً کیا جارہا ہے۔ اتنا ہی نہیں ، قربانی کے ایام میں صفائی ستھرائی کو یقینی بنانے کیلئے بھی عام بیداری لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں بعض جگہوں پر حکام سے ملاقاتیں بھی کی گئی ہیں ۔ یہ سب لائق ستائش کوششیں ہیں مگر عام مسلمانوں کو ان پر سختی سے عمل کرنا چاہئے ورنہ یہ کاغذ پر دھری رہیں گی اور اب تک جو نقصان ہوتا رہا، خدانخواستہ اب بھی ہوگا۔ ہر ممکن احتیاط ملحوظ نہ رکھنا اور یہ سمجھنا مصیبت کو گلے لگانے جیسا ہوگاکہ ’’کچھ نہیں ہوتا‘‘یا ’’جو ہوگا دیکھ لیا جائیگا۔‘‘
کہنے کی ضرورت نہیں کہ کل تک معاشرہ کے اُن لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا جو قانون ہاتھ میں لینا بہادری سمجھتے تھے۔ اب ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ جو شخص قانونی اعتبار سے غلط نہیں ہے اُسے بھی پھنسا دینا آسان ہوگیا ہے۔ وہ بے چارہ کئی سال قید و بند میں گزارتا ہے اور عدالت سے اس بنیاد پر رہائی کا پروانہ پاتا ہے کہ اُس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ موجودہ سیاسی ماحول میں قانون کا پاسدار ہونا کافی نہیں ، دھاندلی کرکے پھنسانے والوں سے خود کو بچانا بھی شرط ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ضابطوں پر عمل میں بھی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ جانور کی خرید کی پکی رسید، احتیاط کے ساتھ اسکی نقل و حمل، قربانی کا گوشت مکمل طور پر ڈھانک کر لانا لے جانا، آلائشوں کو کوڑا دان میں ڈالنا اور جوش پر ہوش کو حاوی رکھنافریضۂ قربانی ادا کرنے والوں کے تدبر کی آزمائش ہے ۔