بہار انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ کیلئے اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔الیکشن کمیشن تسلسل کے ساتھ الزامات کی زد پر ہے اس کے باوجود اس ادارے کی جانب سے ہرالیکشن میں شہریوں کوزیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ دینے کیلئے آمادہ کیاجاتا ہے۔
بہار انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ کیلئے اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔الیکشن کمیشن تسلسل کے ساتھ الزامات کی زد پر ہے اس کے باوجود اس ادارے کی جانب سے ہرالیکشن میں شہریوں کوزیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ دینے کیلئے آمادہ کیاجاتا ہے۔ اس کیلئے الیکشن کمیشن ذرائع ابلاغ کا بھی سہارا لیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب رائے دہندگان کواپنے گھروں سے نکلنے اور پولنگ بوتھ تک پہنچانے کیلئے بڑی منتیں کی جاتی تھیں ۔ بیداری جیسی بیداری نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ووٹنگ کا فیصد قابل قدر نہیں ہوتا تھا مگر جہاں تک ہمیں یاد ہے جب ٹی این سیشن الیکشن کمشنر تھے تب سے رائے دہی کے سلسلے میں جدوجہد تیز ہوئی۔ اُس کے بعد سے صورتحال بدلی اور بعض انتخابات میں پولنگ کا مجموعی فیصد اطمینان بخش سے زیادہ قابل قدراور قابل ذکر رہا۔حالیہ برسوں میں رائے دہندگان پولنگ کے دن کا انتظار اس طرح کرتے ہوئے دکھائی دیئے جیسے تہوار کا انتظار کیاجاتا ہے۔ کیوں نہ ہو؟آخر کار انتخابات بھی تو جمہوری تہوار ہیں ۔ جس بیداری کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ کچھ تو الیکشن کمیشن اور سماجی اداروں اور تنظیموں کی مرہون ِ منت ہے اور کچھ رائے دہندگان کی اپنی فکراور توجہ کا نتیجہ۔ بہرحال یہ خوش آئند ہے ۔بہار سے ملنے والی اطلاعات شاہد ہیں کہ پوری ریاست انتخابی تاریخوں کا بے چینی سے انتظار کررہی ہے۔ اس بار دو مراحل میں انتخاب مکمل ہوجائے گا جو اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ نتائج کیلئے طویل انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
حالیہ مہینوں میں ووٹ چوری کا جو تنازع منظر عام پرآیا اُس پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے ممکن ہے کہ آئندہ سماعت میں کوئی حتمی فیصلہ منظر ِعام پر آئے، اگر ایسا نہ ہوا تب بھی سماجی اور فلاحی تنظیموں کیلئے ضروری ہے کہ اِس بار بہار کا پولنگ فیصد بڑھانے کیلئے جتنے بھی مثبت اقدامات ہوسکتے ہیں وہ کئے جائیں ۔ اب تک کی ہماری اطلاعات میں یہ شامل ہے کہ بہار میں سول سوسائٹی رائے دہندگان کو بیدار اور ہموار کرنے کیلئےکوشاں ہے۔ حسنِ اتفاق یہ ہے کہ بہار کے جو باشندے دوسری ریاستوں میں بغرض معاش مقیم ہیں وہ دیوالی اورچھٹھ پوجا کیلئے اپنے وطن گئے ہوئے ہیں ۔پولنگ میں اضافہ کیلئے اُن کا وہاں موجود رہنا فالِ نیک ہے۔ جو لوگ اِن موقعوں پر وہاں نہیں پہنچ پائے انہیں ووٹنگ کیلئے بلایا جانا چاہئے۔ ہمیں یہ جان کرخوشی ہوئی کہ ریاست کےسیاسی ماحول کودیکھتے ہوئے بہت سے رائے دہندگان اپنے آبائی وطن پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ جمہوریت کا کوئی ایک پہلو کمزور ہوجائے جیسے ووٹ چوری ،تو اس کے کسی دوسرے پہلو کو زیادہ مضبوطی ملنی چاہئے۔ مضبوطی فراہم کرنے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ انتخابی فہرستوں کی مبینہ دھندلیوں کاووٹنگ فیصدمیں خوشگوار اضافے کے ذریعے جواب دیاجائے۔اگرانتخابی فہرستوں کامسئلہ دس فیصدووٹوں کو متاثر کر رہا ہے توبہار کے باشعور شہریوں کو ابھی سے جدوجہد کرنی چاہئے کہ ووٹنگ کا فیصد ۱۲؍ تا۱۵؍ بڑھایاجائے۔ کیا ایسا ہوگا؟ امید تو یہی ہے کہ ایسا ہوگا مگر امید کو پورا کرنے کیلئے جس جدوجہد کی ضرورت ہےاُس میں کسی صورت کمی نہیں آنی چاہئے۔ بہار کی فکر صرف اہل ِبہار کریں یہ ٹھیک نہیں ، یہ فکر دیگر ریاستوں کے لوگوں کو بھی کرنی چاہئے۔ یہاں کے لوگ اہلِ بہار کو اُن کا جمہوری حق یاد دلاتے رہیں کہ انہیں یہ حق ادا کرنے کیلئے اپنے وطن جانا ہے تو غیر بہاری بھی بہار کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں ۔