• Fri, 06 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بائیڈن اور ٹرمپ، دونوں نہیں چاہئے!

Updated: July 13, 2024, 2:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جو بائیڈن صدارتی دوڑ سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اُن کی پارٹی کے ارباب اقتدار چاہتے ہیں کہ وہ مزاحمت ِ مزید کے بغیر نام واپس لے لیں مگر ۸۲؍ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اقتدار سے اُن کا جی نہیں بھرا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جو بائیڈن صدارتی دوڑ سے ہٹنے کو تیار نہیں  ہیں ۔ اُن کی پارٹی کے ارباب اقتدار چاہتے ہیں  کہ وہ مزاحمت ِ مزید کے بغیر نام واپس لے لیں  مگر ۸۲؍ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اقتدار سے اُن کا جی نہیں  بھرا ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ ہوئے مباحثے میں  چند ثانیوں  کیلئے اُن کے ذہن کا ماؤف ہوجانا امریکہ میں  فکرمندی کا باعث ہے مگر وہ فکرمند نہیں  ہیں ۔ خدا جانے وہ آئندہ چار سال کے دور اقتدار میں  ایسا کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں  جو چار سال کے جاری دورانیہ میں  نہیں  کرپائے۔ اُن کے مقابلے میں  ٹرمپ ہیں  جن سے پناہ مانگنے والوں  کی تعداد پہلے بھی کم نہیں  تھی۔ اب بھی نہیں  ہے۔ ۷۸؍ سال کی عمر کو تو یہ بھی پہنچ چکے ہیں  مگر جوش ِ اقتدار ان کا بھی کم نہیں  ہے۔ چار سال پہلے، بائیڈن کے آنے سے ٹرمپ کے جانے کی راہ ہموار ہوسکتی تھی اس لئے بہتوں  نے بائیڈن کو ترجیح دی تھی۔ خود ہم نے ان کالموں  میں  جو بائیڈن کی حمایت میں  بڑی خوش گمانی کے ساتھ کافی کچھ لکھا تھا مگر جیتنے اور وہائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد اُنہوں  نے اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کیا اور دُہرے معیار کی ایسی مثال قائم کی کہ مورخ بھول جائے تو تاریخ پڑھنے والے یاد دلائینگے کہ حضور آپ نے بائیڈن کی غیر معمولی منافقت کا احوال نہیں  لکھا؟ 
 بائیڈن کا دُہرا معیار اور منافقت یہ ہے کہ دو جنگوں  کی بالواسطہ سرپرستی کرتے ہوئے انہوں  نے روس کے خلاف مظلوم یوکرین کی مدد کی اور غزہ کے خلاف ظالم کو اسلحہ فراہم کیا۔ ایک ہی وقت میں  اُنہوں  نے کہیں مظلوم اور کہیں  ظالم کی مدد کا انوکھا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے خلوص سے ہم نے اُن کے صدر بننے کی دُعا کی تھی، اُتنے ہی خلوص سے اُن کے محروم ِ صدارت ہونے کی دُعا کررہے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں  کہ بائیڈن تو جائیں  مگر ٹرمپ نہ آجائیں ۔ اِن دو لیڈروں  میں  فرق یہ ہے کہ ایک کھلا دشمن ہے، دوسرے کو کھلنے میں  دیر نہیں  لگی۔ بائیڈن امن ِ عالم کے ایسے علمبردار ہیں  جن کے موقف کو حرف عام میں  اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں  نے اسرائیل سے کہا کہ غزہ کے لوگوں  کو مارو مگر اس طرح کہ خون نہ بہے، دُنیا شور نہ مچائے اور کچھ لوگ یہ نہ کہیں  کہ نیتن یاہو کے ساتھ ساتھ بائیڈن کے ہاتھ بھی فلسطینیوں  کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ہم نے جس جملے کا یہ مرادی معنی اخذ کیا ہے اُس کا لفظی معنی یہ تھا کہ اسرائیل غزہ میں  محدود جنگ کرے، غیر محدود نہیں ۔ جب نیتن یاہو جنگ کی ساری حدوں  کو توڑتے چلے گئے تب بائیڈن اُن سے ناراض نہیں  ہوئے، اُنہوں  نے اسرائیلی وزیر اعظم کی گوشمالی نہیں  کی اور اُن کی امداد بند نہیں  کی۔ امریکی صدور سے منصفانہ فلسطین پایسی کی اُمید رکھنا خود کو دھوکہ دینا ہے اور بائیڈن نے اس کی توثیق ہی کی ہے۔
 جنگ کے متاثرین کو طبی امداد دینے والے انڈونیشیائی ادارہ ’’میڈیکل ایمرجنسی ریسکیو کمیٹی‘‘ کے سربراہ سربنی عبدالمراد نے غزہ کے انڈونیشیائی اسپتال کی تباہی پر بائیڈن کے نام کھلے خط میں  لکھا تھا کہ’’ اہل غزہ روزانہ موت کا ننگا ناچ دیکھ رہے ہیں ، ہر پانچ منٹ پر ایک بچہ فوت ہو رہا ہے یہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ کیا بچے کیا خواتین، کیا معمر کیا معذور، کیا ایمبولنس کیا اسپتال، کیا ڈاکٹرس اور نرسیں  کیا اسکول اور اساتذہ، کیا رہائشی عمارتیں  اور کیا عبادتگاہیں ، سب کچھ تباہ ہورہا ہے، یہ ایک پوری قوم کا قتل عام ہے، نسلی صفایہ ہے۔‘‘ ۲۰؍ نومبر ۲۳ء کے اس خط کا بائیڈن نے جواب نہیں  دیا، شاید اسلئے کہ وہ انسانیت کو دھوکہ دے سکتے ہیں ، اِسرائیل کو نہیں-

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK