Inquilab Logo Happiest Places to Work

غریب ملکوں کی امداد بند؟

Updated: July 03, 2025, 7:11 PM IST | Mumbai

ٹرمپ نے پیسے بچانے کے درجنوں طریقوں پر عمل شروع کیا ہے اور اسی کے ایک حصے کے طور پر فارین ایڈ (غیر ملکوں کی امداد) بند کردی ہے۔ اس سے عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچے گا یہ بالکل یقینی ہے مگر ٹرمپ اس کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

امریکہ کے صدر ٹرمپ سوچتے کم اور اقدام زیادہ کرتے ہیں۔ اُن کی اکثر کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے جیسے اُن کے نتائج و عواقب کے بارے میں اُنہوں نے سوچا سمجھا کچھ نہیں بلکہ جو بات جس طرح جی میں آئی اُسی طرح اُس کا اظہار کردیا اور پھر اُس پر عملدر آمد کے احکام جاری کردیئے۔ اگر یہ نہیں تو اُن پر یہ دھن سوار ہے کہ امریکہ کو پیسہ بچا کر ہی ’’گریٹ اگین‘‘ بنایا جاسکتا ہے، کوئی بھی دوسرا طریقہ معاون نہیں ہوسکتا۔ اب کون سمجھا ئے کہ جس طرح سفارتی شعبہ میں کسی ملک کا ’’ہارڈ پاور‘‘ ہوتا ہے جس میں جی ڈی پی، معاشی شرحِ نمو، شرحِ افراط زر، تکنیکی و صنعتی ترقی وغیرہ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے بالکل اُسی طرح ’’سافٹ پاور‘‘ بھی ہوتا ہے جس کو سمجھنے کیلئے اُس ملک کی تہذیبی ساکھ، تعلیمی مرتبہ، علمی استعداد، یونیورسٹیاں، کالجز، رسوم و رواج، عوامی تال میل اور انسانی و اخلاقی قدروں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ امریکہ پیسے ہی سے گریٹ اگین نہیں بنا، وہ دیگر ملکوں بالخصوص غریب اور ترقی پزیر ملکوں کی مدد کرکے بھی گریٹ کہلایا۔ ٹرمپ نے پیسے بچانے کے درجنوں طریقوں پر عمل شروع کیا ہے اور اسی کے ایک حصے کے طور پر فارین ایڈ (غیر ملکوں کی امداد) بند کردی ہے۔ اس سے عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچے گا یہ بالکل یقینی ہے مگر ٹرمپ اس کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ امریکی امداد بند ہونے سے بہت سے ملکوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے مگر بے چینی تو فلسطین میں بھی تھی جس سے ٹرمپ نے آنکھیں موند لیں اور بجائے نیتن یاہو کی امداد روکنے کے، اُنہوں نے فلسطین کی امداد روک دی تھی۔ اس کے باوجود اگر اُنہیں امن کا نوبیل انعام چاہئے تو وہ کیسے مل سکتا ہے؟
 امن کا معنی جنگ روکنا ہی نہیں ہوتا، بھکمری روکنا بھی ہوتا ہے، بیماریاں روکنا بھی ہوتا ہے، آلودہ پانی سے موت کا خطرہ کم کرنا بھی ہوتا ہے اور بچوں کے تعلیم سے بے بہرہ ہوکر سماج دشمن عناصر میں تبدیل ہونے کا اندیشہ کم کرنا بھی ہوتا ہے۔ اگر مستحق ملکوں کو امداد نہیں ملے گی تو وہاں کے عوام کو صحتمند غذا، اچھا علاج معالجہ، صاف پانی اور بچوں کو اچھی تعلیم کیسے ملے گی؟ عالمی سطح پر مشہور طبی جریدہ ’’لانسیٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق، جو حال ہی میں منظر عام پر آئی، یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مستحق ملکوں کی امداد بند ہونے سے ۲۰۳۰ء تک اُن ملکوں کے ۱۴؍ ملین (ایک کروڑ چالیس لاکھ) بچوں کی موت کا اندیشہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو اس فیصلے اور اقدام پر نظر ثانی کرنا چاہئے ورنہ امریکہ پیسوں میں گریٹ بن بھی گیا تو گریٹ نیس (عظمت) کیلئے درکار عزت و احترام سے محروم ہو جائے گا۔ 
گزشتہ روز غیر ملکی امداد بند کردی گئی جس کا اعلان کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ خیرات نہ دے بلکہ ملکوں کو خود کفیل بننے کا موقع دے۔ اگر واقعی اُن کا مقصد اتنا نیک ہے تو زرِ تعاون اچانک کیوں بند کردیا گیا اور کیوں پانچ سالہ مدت طے نہیں کی گئی تاکہ امداد سے جتنے کام ہوتے تھے وہ ہوتے رہیں اور متعلقہ ملکوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع بھی ملے؟
مارک روبیو نے ’’ایڈ سے بہتر ٹریڈ‘‘ کا نسخہ جاری کیا ہے مگر ٹریڈ پر ٹرمپ کے فیصلوں سے تو دُنیا پریشان ہے۔ اِس نفسا نفسی میں متاثرہ ممالک کیا کر سکتے ہیں ؟ جہاں بھکمری کا راج ہو وہاں معاشی سرگرمیاں اچانک برپا کرکے انقلاب کیسے لایا جاسکتا ہے؟ یہ بات تو عقل سے پرے ہے؟ کیاامریکہ اتنا بھی نہیں سوچتا؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK