اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ۱۰۰ سے زائد غیر قانونی بستیاں بنائی ہیں۔ مغربی کنارے میں تقریباً ۵ لاکھ آباد کار اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ۲ لاکھ سے زیادہ آباد کار رہائش پذیر ہیں۔
EPAPER
Updated: July 03, 2025, 7:01 PM IST | Tel Aviv/Washington
اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ۱۰۰ سے زائد غیر قانونی بستیاں بنائی ہیں۔ مغربی کنارے میں تقریباً ۵ لاکھ آباد کار اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ۲ لاکھ سے زیادہ آباد کار رہائش پذیر ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے کابینی وزراء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر میں کنیست کی تعطیل سے پہلے مقبوضہ مغربی کنارے کو صہیونی ریاست میں ضم کرے۔ انہوں نے اگلے ہفتے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ نیتن یاہو کی ملاقات سے قبل ایک درخواست کرکے یہ مطالبہ کیا جہاں مباحثے کا مرکز غزہ میں ممکنہ ۶۰ روزہ جنگ بندی اور حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہونے کی توقع ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے مطالبے پر ۱۵ کابینی وزراء اور کنیست (اسرائیل کی پارلیمنٹ) کے اسپیکر امیر اوہانا نے دستخط کئے ہیں۔ وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں آیا۔ حکمت عملی امور کے وزیر رون ڈرمیر، جو نیتن یاہو کے دیرینہ معتمد ہیں، نے درخواست پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ وہ پیر سے واشنگٹن میں ایران اور غزہ پر گفتگو کیلئے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں بھوک سے عوام سڑکوں پر بے ہوش ہورہے ہیں: اُنروا
کابینی وزراء نے لکھا کہ ہم وزراء اور کنیست کے اراکین فوری طور پر، یہودیہ اور سامریہ (مقبوضہ مغربی کنارے) پر اسرائیلی خودمختاری اور قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اچانک حملے نے یہ ثابت کر دیا کہ یہودی بستیوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا تصور اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ ہے۔ درخواست میں زور دیا گیا ہے کہ اس کام کو مکمل کرکے وجودی خطرے کو اندر سے ختم کیا جانا چاہئے اور ملک کے دل میں ایک اور قتل عام کو روکا جانا چاہئے۔
امریکہ "اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے"
امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کو کہا کہ وہ اسرائیل اور اس کے سلامتی کے فیصلوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ بیان اسرائیلی وزراء کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کے مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کے دو ریاستی حل کی حمایت کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کو نظرانداز کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: امینہ اردگان کی پوپ لیو سے ملاقات، غزہ جنگ بندی پر عیسائیوں کے مضبوط موقف پر زور
انادولو کی طرف سے پوچھے جانے پر کہ نیتن یاہو پر فوری طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے پر زور دے رہے ہیں، محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے سوالات کو وائٹ ہاؤس کی طرف موڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے بارے میں ہماری پوزیشن یہ ہے کہ ہم اسرائیل اور اس کے فیصلوں اور اپنی داخلی سلامتی کے تئیں اس کے نقطہ نظر کے ساتھ کھڑے ہیں۔
دو ریاستی حل اور غزہ کی صورتحال پر امریکی موقف
جب امریکہ کی جانب سے اسرائیل-فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت جاری رکھنے کے بارے میں دباؤ ڈالا گیا تو بروس نے کہا کہ صدر ٹرمپ "موجودہ حالات کے بارے میں حقیقت پسند" ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واضح طور پر، غزہ ایک ناقابل رہائش جگہ ہے۔ اسے عرب شراکت داروں کی مدد سے دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ امید ہے کہ حالات بدلیں گے۔ لیکن یہ عام طور پر موجودہ صورتحال سے کافی آگے کی بات ہے۔ لہذا صدر اسی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ۳۰۰؍ سے زائد صحافیوں کا بی بی سی کو اسرائیل حامی موقف اپنانے پر کھلا خط
فلسطینی اتھارٹی سمیت عرب ممالک نے مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کے مطالبہ کو مسترد کر دیا
عرب ممالک نے بدھ کو اسرائیلی وزراء کے مطالبات کو مسترد کر دیا اور اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔ ایک بیان میں، فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی مطالبات کو "علاقائی استحکام کیلئے براہ راست خطرہ" قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ راملہ میں قائم اتھارٹی نے کہا کہ مغربی کنارے کے الحاق کے مطالبات "بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی قانونی حیثیت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو ۱۹۶۷ء میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم سمیت تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اردن کی وزارت خارجہ نے بھی اسرائیلی حکومت کے اراکین کے "خطرناک بیانات" کی "سخت ترین الفاظ میں" مذمت کی۔
سعودی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں "فلسطین کے مغربی کنارے کے علاقوں پر خودمختاری نافذ کرنے کے اسرائیلی قابض عہدیدار کے مطالبہ" کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ وزارت نے زور دیا کہ سعودی عرب"فلسطینی سرزمین پر بستیوں کو وسعت دینے کی کسی بھی کوشش" کو مسترد کرتا ہے۔ انہوں نے"اسرائیلی حکام کو بین الاقوامی فیصلوں کیلئے جوابدہ ٹھہرانے" کی اہمیت پر زور دیا۔
مصری وزارت خارجہ نے بھی مغربی کنارے کے الحاق کے اسرائیلی مطالبات کو سختی سے مسترد کر دیا اور انہیں "بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی" قرار دیا جس کا مقصد فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کو مضبوط کرنا ہے۔ قاہرہ نے دو ریاستی حل پر مبنی فلسطین-اسرائیل تنازع کے منصفانہ اور جامع حل کے حصول کی کوششوں کو کمزور کرنے والے کسی بھی یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کا اعادہ کیا۔
مغربی کنارے اسرائیلی بستیاں غیر قانونی
واضح رہے کہ اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً ۵ لاکھ غیر قانونی آباد کار اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ۲ لاکھ سے زیادہ آباد کار موجود ہیں۔ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ۱۰۰ سے زیادہ غیر قانونی بستیاں بنائی ہیں۔ اسرائیل نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں غزہ پٹی پر اپنی نسل کشی کی جنگ کے آغاز کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں اپنی آبادکاری کی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: قانون سازوں کا یوکرین کی طرز پر ’’غزہ فیملی اسکیم‘‘ کا مطالبہ
فلسطینی اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج اور غیر قانونی آباد کاروں کے ہاتھوں کم از کم ۹۸۸ فلسطینی ہلاک اور ۷ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر ممالک مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی صہیونی بستیوں کو، جن میں سے کئی بستیاں فلسطینی برادریوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیتی ہیں، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے جولائی ۲۰۲۴ء میں اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی تمام بستیوں کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔