ٹرمپ کا جیتنا پچاس فیصد طے تھا اس سے زیادہ نہیں ۔ مگر، اُن کے انتخابی پیغامات اور عوام کو اعتماد میں لینے کی کوششیں اس حد تک کارگر ثابت ہوئیں کہ وہ علاقے اور ریاستیں جو ڈیموکریٹس کا گڑھ ہوا کرتی تھیں وہ بھی ری پبلکن کے حق میں ہموار ہوگئیں ۔
EPAPER
Updated: November 09, 2024, 1:34 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ٹرمپ کا جیتنا پچاس فیصد طے تھا اس سے زیادہ نہیں ۔ مگر، اُن کے انتخابی پیغامات اور عوام کو اعتماد میں لینے کی کوششیں اس حد تک کارگر ثابت ہوئیں کہ وہ علاقے اور ریاستیں جو ڈیموکریٹس کا گڑھ ہوا کرتی تھیں وہ بھی ری پبلکن کے حق میں ہموار ہوگئیں ۔
ٹرمپ کا جیتنا پچاس فیصد طے تھا اس سے زیادہ نہیں ۔ مگر، اُن کے انتخابی پیغامات اور عوام کو اعتماد میں لینے کی کوششیں اس حد تک کارگر ثابت ہوئیں کہ وہ علاقے اور ریاستیں جو ڈیموکریٹس کا گڑھ ہوا کرتی تھیں وہ بھی ری پبلکن کے حق میں ہموار ہوگئیں ۔ یہاں تک کہ اقلیتی فرقوں مثلاً سیاہ فاموں یا ہسپانیوں نے بھی اُن کی دل کھول کر تائید و حمایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی خود اُن کیلئے بھی توقع سے کہیں زیادہ ہے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اسے کتنا سنبھال پاتے ہیں ۔
اس دوران، حیران و ششدر دُنیا کے لیڈروں کی جانب سے تہنیتی پیغامات کا ڈھیر لگ گیا۔ کسی نے بہت کھل کر ٹرمپ کی فتح پر اظہار ِ مسرت کیا تو کسی نے سوچ سمجھ کر، سنبھل کر اظہارِ خیال کیا۔ پیغامات کے اِس انبار میں ہم نے یہ دیکھنے کو ترجیح دی کہ خلیج کے بعض لیڈروں نے کیا سوچا اور اپنے پیغام میں کیا لکھا۔
اسرائیل نے وہی کیا جو وہ کرسکتا تھا۔ ٹرمپ کی فتح پر بے حد خوش نیتن یاہو نے پُرجوش انداز میں اُنہیں مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ’’وہائٹ ہاؤس میں آپ کی تاریخی واپسی امریکہ کیلئے نئی شروعات اور اسرائیل و امریکہ کے عظیم اتحاد کے حق میں ازسر نو طاقتور معاہدہ ہے۔ آپ کی کامیابی غیرمعمولی ہے۔‘‘
سعودی عرب، جس کے شاہی خاندان سے سابقہ میعاد میں ٹرمپ کے بہت اچھے تعلقات قائم ہوگئے تھے، نے بھی مبارکباد کا پیغام جاری کیا۔ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلطان نے ’’دو دوست ملکوں (سعودی اور امریکہ) او راُن کے عوام کے قریبی تعلقات‘‘ کی ستائش کی جو ہر شعبہ میں ترقی اور استحکام کے متلاشی ہیں ۔‘‘ یاد رہنا چاہئے کہ سابقہ دور صدارت میں ٹرمپ او ر اُن کے داماد جیریڈ کشنیر کے، ولی عہد محمد بن سلطان (جو ایم بی ایس کہلاتے ہیں ) سے قریبی تعلقات ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: خاتون صدر سے محروم رہا امریکہ
فلسطینی اتھاریٹی کے صدر محمود عباس نے مبارکباد دینے میں تاخیر نہیں کی۔ اُن کا پیغام مقصدسے عاری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قیام ِ امن کا ہمارا عہد واضح ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں امریکہ، فلسطینی عوام کی جائز آرزوؤں کی حمایت کریگا۔‘‘ محمود عباس نے ’’آزادی، حق خود ارادیت اور علاحدہ ملک کیلئے فلسطینیوں کے عزم ِ محکم‘‘ کا بھی حوالہ دیا۔
حماس کے تیور محمود عباس سے مختلف ہیں ۔ حماس نے کہا کہ ’’نئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ ہمارے طرز ِعمل (پوزیشن) کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اہل فلسطین کے حق میں اس کا موقف کیا ہے اور اس کی جانب سے کون سے عملی اقدام کئے جائینگے۔‘‘ حماس نے لکھا کہ’’ نومنتخب امریکی صدر کو اُن آوازوں کو سننا چاہئے جو خود امریکی معاشرہ سے اُبھریں اور جن میں غزہ پر صہیونی یلغار، فلسطینی علاقوں پر قبضے اور نسل کشی کی مذمت کی گئی۔‘‘ حماس کا اشارہ امریکی دانش گاہوں کی طرف ہے جہاں کے اساتذہ اور طلبہ نے اہل غزہ پر ظالمانہ لشکر کشی کیخلاف تاریخی احتجاج کیا۔ ایران نے مبارکباد دی ہو ایسی کوئی خبر ہماری نظر سے نہیں گزری البتہ حسن روحانی کا بیان ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے ایران کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہونگی۔
مشرق وسطیٰ سے قطع نظر روسی صدر پوتن نے پہلے دن نہیں ، دوسرے دن مبارکباد دی، اس طرح گرمجوشی کے بجائے سرد مہری کا مظاہرہ کیا، یہ الگ بات کہ اُسی دن ایک مباحثہ میں اُنہوں نے ٹرمپ کو بہادر اور جرأتمند قرار دیا۔